رابعہ شیخ
اکیسویں صدی میں مغرب کو ایجادات کی دنیا تسلیم کیا جاتا ہے لیکن آج اگر مغربی دنیا تعصب و تنگ نظری کی عینک اتار کرحقیقت پسندی و حق شناسی کاچشمہ لگالے تو اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ماضی میں جب یورپ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا تو اس وقت مسلمان سائنسدان ہی تھے جو کئی اہم اور انقلابی ایجادات کے روشن باب تحریر کررہے تھے۔ روز مرہ زندگی کی کئی ایسی اہم ایجادات ہیں، جن کے ذریعے مسلمان سائنسدانوں نے ہی دنیا بھر میں انقلاب برپا کیا۔ ان انقلابات کی بدولت اگر مسلمان سائنسدانوں کو جدید ایجاداتی دور کا بانی و موجد کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ آئیے آج ذکر کرتے ہیں کچھ ایسے ہی عظیم سائنسدانوں اور ان کی دریافتوں یا ایجادات کی، جن سے شاید کئی لوگ بے خبر ہیں۔
پرفیوم، منرل واٹر، واٹر پروف اور فائر پروف کاغذ : مسلم دنیا جابر بن حیان کو کیمسٹری،ریاضی، کیمیا، فلاسفی، ادویات، نفسیات، فلکیات اور طب کے بے تاج بادشاہ کے طور پر جانتی ہے جبکہ اہل مغرب انہیں’’ Geber‘‘ کے نام سے پکارتےہیں۔ یہی نہیں، جابر بن حیان کو کیمسٹری کا بانی یا بابائے کیمیا بھی کہاجاتا ہے۔ ان کی خدمات میں کئی اشیا شامل ہیں، جن میں سلفائیڈ بنانے کے طریقے، سلفیورک ایسڈ اور نائٹرک ایسڈ دنیا بھر میںمشہور ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے قرع النبیق نامی ایک آلہ ایجاد کیا، جس کے دو حصے تھے۔ ایک حصہ میں کیمیائی مادوں کو پکایا جاتا اور مرکب سے اٹھنے والے بخارات کو نالی کے ذریعہ آلہ کے دوسرے حصہ میں پہنچا کر ٹھنڈا کر لیا جاتا تھا۔ یوں وہ بخارات دوبارہ مائع حالت اختیار کر لیتے۔ کشیدگی کا یہ عمل کرنے کے لیے آج بھی اسی قسم کا آلہ استعمال کیا جاتا ہے۔ جابر بن حیان نے عمل کشید ،عمل تقلید (فلٹریشن)،عمل تبخیر کے ذریعے دنیاکو منرل واٹر ، خوشبوؤں اور الکوحل سپرےجیسا تحفہ دیا۔ واٹر پروف اور فائر پروف کاغذ بھی جابر بن حیان کی ہی ایجاد ہے ۔
فاؤنٹین پین :اکیسویں صدی کو کمپیوٹر کا دور کہا جاتا ہے، وہ ہر کام جو پہلے قلم کی بدولت کیے جاتے تھے اب باآسانی کمپیوٹر پر منتقل ہوگئے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود فاؤنٹین پین کی اہمیت ختم نہیں ہوسکی۔ اس کی ایجاد کا سہرا بھی ایک مصری مسلمان سلطان ہی کے سر ہے، جنہوں نے دنیا کا پہلا فاؤنٹین پین 953ء میں ایجاد کیا۔ وہ ایک ایسا پین بنانا چاہتا تھے،جس کے داغ ہاتھوں یا کپڑوں پر نہ لگ سکیں۔ اس قلم میں موجودہ دور کے قلم ہی کی طرح سیاہی اندر ذخیرہ ہوتی تھی اور نب کے ذریعے اس سے لکھا جاتا تھا۔
کرسٹل کراکری :شیشے کے برتنوں کوcrystal wareبھی کہا جاتا ہے، جس کی بغیر مہمان نوازی کچھ ادھوری سی محسوس ہوتی ہے۔ یہ تحفہ بھی دنیا کو مسلمان سائنسدان علی ابن نفی نے دیا۔ انہوں نے دنیا بھر میں کرسٹل سے بنے گلاس اور دیگر مصنوعات بنانے کا فن متعارف کروایا۔ یہی نہیں، انہوں نے 9ویںصدی میں تھری کورس میل کا تصور پیش کیا، جس سے مراد تین کھانے یعنی پہلے سوپ، اس کے بعد مرکزی پکوان مچھلی یا گوشت اور پھر میٹھا شامل ہے۔
اُڑن مشین (پیراشوٹ) اُڑن مشین، جسے دنیا بھر میںآج پیراشوٹ کے نام جاناجاتا ہے،852ء میں مسلمان انجینئر، موسیقار اور شاعر عباس ابن فرانز نے دنیا بھر میں متعارف کروایا۔اس نوجوان نے ڈھیلے ڈھالے لباس اور لکڑی کے پروں کے ذریعے پیراشوٹ کا تصور قائم کیا۔ اگر چہ عباس ابن فرانز کامقصداس لباس اور پروں کے ساتھ ہ پرندے کی طرح ہوا میں اڑنے کا تھا مگر وہ ناکام رہا، مگر اس لبادے نے نیچے گرنے کی رفتار کم کردی اور اس طرح دنیا کا پہلا پیراشوٹ وجو دمیں آیا۔
راکٹ اور ٹارپیڈو :15ویں صدی میں مسلمانوں نے دنیا کو راکٹ اور ٹارپیڈو کا تحفہ دے کر جنگی سازوسامان کی دنیا میں انقلاب برپا کیا۔ یہ ایک ایسا وقت تھا، جب غیر مسلم اس ٹیکنالوجی سے کلی طور پر لاعلم تھے۔
ڈگری ، ڈگری گاؤن :دنیا بھر کی یونیورسٹیاں یا کالج اپنے ادارے سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو تعلیم مکمل ہونے پر ڈگری سے نوازتے ہیں۔ ڈگری دینے والی دنیا کی پہلی یونیورسٹی بنانے کا سہرا شہزادی فاطمہ الفرہی کو جاتا ہے۔859ء میں مراکش میں دنیا کی پہلی یونیورسٹی’ القراویون‘ نے پہلی ڈگری دی، اس ڈگری کو ’’ اجازہ‘‘ یعنی سرٹیفکیٹ کہا جاتا تھا۔ یہی نہیں، اس کے علاوہ کانووکیشن کے دن جس گاؤن اور کیپ کوطلبہ بطور اعزاز زیب تن کرتے ہیں، اس کا تصور بھی عرب مسلمانوں کا دیا ہوا ہے۔ جی ہاں یورپ کی پہلی یونیورسٹی جنوبی اٹلی کے شہر سیلرنو میں مسلمانوں نے ہی قائم کی تھی۔ اس یونیورسٹی کے بعد اسپین کے شہر طلیطلہ ، سیول اور گیرانڈا میں یونیورسٹیوں کے قیام کے بعد جب یورپی طلبہ گریجویٹ ہوکر نکلتے تھے تو وہ عربیوں کا روایتی پہناوا توب پہنا کرتے تھے، جو اس بات کی دلیل ہوتا تھا کہ یہ طالب علم گریجویٹ ہے۔