زرداری صاحب خوب بولے بلکہ کچھ زیادہ ہی بول گئے۔ کسی نے تبصرہ کیا ہے کہ پچھلی مرتبہ اینٹ سے اینٹ بجانے کا بیان دے کر اینٹیں لینے دبئی چلے گئے تھے اب جیل جائیں گے۔ لیکن لگتا کچھ اور ہے۔ زرداری صاحب نے ایک دن بیان دیا کہ تین سال ملازمت والا قوم کے فیصلے کرنے کا حقدار نہیں۔ اس بیان میں عدالتوں کو بھی چھیڑ دیا کہ 9 لاکھ مقدمات زیر التوا پڑے ہیں ان پر کام کریں۔ یہ بڑی ہمت کی بات ہے کہ تین سال کی نوکری والوں کو براہ راست چیلنج کیا جائے۔ معلوم نہیں اس کا سبب کیا ہے یہ اپنے گرد تنگ ہوتے ہوئے گھیرے کو ڈھیلا کرنے کی کوشش ہے یا کسی نئی مہم کا نقطہ آغاز!! پاکستانی قوم کو تو بعد میں پتا چلتا ہے کہ پھر ہاتھ ہوگیا۔ اس بیان کے بعد زرداری صاحب نے ایک قدم اور آگے بڑھایا ہے، ان کا کہنا ہے کہ مڈٹرم الیکشن کا اشارہ مل گیا ہے اور وہ پُرامید ہیں کہ حکومت بھی ان کی پارٹی کو ملے گی۔ یہ گزشتہ ایک ماہ میں دوسرا اشارہ ہے جو مڈٹرم الیکشن کے حوالے سے دیا گیا ہے۔ یہ نہایت افسوسناک امر ہے کہ ملک و قوم کے اربوں کھربوں روپے پھونک کر انتخابات کرائے گئے اور حکومت بننے کے تین ماہ بعد خود وزیراعظم نے مڈٹرم الیکشن کا اشارہ دے دیا۔ اب آصف زرداری صاحب نے وہی بات کہی ہے۔ ایسی ہی بات خواجہ سعد رفیق نے بھی کی تھی کہ ایک ماہ میں حکومت پنجاب ہمیں ملنے والی ہے۔ لیکن وہ جیل چلے گئے، زرداری صاحب کہاں جاتے ہیں جیل یا دبئی۔۔۔ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ لیکن یہ کہا ہے 120 دن میں مڈٹرم الیکشن کی باتیں۔ویسے زرداری صاحب کا بیان خاصا قابل غور ہے۔ اگرچہ تین سال کی نوکری والے کا ذکر سیدھا سادا آرمی چیف کا حوالہ ہے اور مداخلت سے ملک کے 15 سال پیچھے چلے جانے کی بات بھی درست ہے۔ لیکن اس بیان کا فارنسک تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ممکن ہے میڈیا فوج کے دباؤ میں سارا بوجھ زرداری صاحب پر ڈال دے لیکن ان کے بیان میں فوج، عدلیہ، میڈیا اور خود سیاستدانوں کے سوچنے کے لیے بہت سی باتیں ہیں۔
زرداری صاحب نے جو اشارہ دیا ہے کہ تین سال ملازمت والے کو فیصلوں کا حق نہیں۔ نظام کو برقرار رہنے دیا جائے، بہتر تھا کہ شفاف انتخابات ہونے دیتے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ انتخابات شفاف نہیں تھے لیکن یہ بات انہوں نے اس وقت کیوں نہیں کہی جب مجلس عمل اور مسلم لیگ یہ بات کہہ رہے تھے، اس وقت انہوں نے اشارہ دیا کہ حکومت بننے دیں گے۔ خورشید شاہ صاحب نے ایک سے زیادہ مرتبہ یہی کہا تا کہ مسلم لیگ (ن) کا اسپیکر نہ آسکے۔ اس وقت یہ بات کیوں سمجھ میں نہیں آئی کہ سیاسی قوتوں کو فیصلہ کرنا چاہیے۔ خیر دیر آید درست آید۔ لیکن زرداری صاحب اپنی پارٹی کا اجلاس بلائیں اور تیس برس سے سندھ میں حکمران اپنی پارٹی قیادت سے سوال پوچھیں کہ چیف جسٹس کو مٹھی جانے کا موقع کیوں ملا۔ سرکاری وسائل کے باوجود تھرپارکر میں بچوں کی اموات کیوں نہیں رُکیں۔ لاڑکانہ، نوابشاہ اور سندھ کے دیگر شہر تباہ حال کیوں ہیں یہ لندن و پیرس کیوں نہیں بنے۔ یہی سوال مرکز میں حکمرانی کرنے والی ٹیم سے بھی کیے جائیں۔ اسی طرح کا اجلاس مسلم لیگ (ن) کو بھی بلانا چاہیے وہ بھی غور کرے کہ فوج کو مداخلت کا موقع کیوں ملتا ہے۔ اپنی مدد کے لیے فوج ہی کو کیوں پکارتے ہیں، ویسے تو عوام، عوام کی گردان کرتے ہیں لیکن انتخابات کے وقت مدد کے لیے خفیہ اداروں کو آواز دیتے ہیں، پھر کچھ تو ماننا پڑے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پہلے سیاسی جماعتوں کو اپنی صفیں سیدھی کرنی ہوں گی، پھر جس کو بھی حکومت ملے وہ تمام سیاسی قوتوں کو ساتھ ملا کر اس مداخلت کے خاتمے کا نظام وضع کرے۔ اور نظام تو موجود ہے بس جس جمہوریت کا صبح شام راگ الاپتے ہیں اس پر خود بھی عمل پیرا ہوجائیں۔ سرکاری وسائل کو امانت سمجھیں، ارکان پارلیمنٹ وی آئی پی نہیں خادم بنیں پھر دوسروں کو جب یہ درس دیا جائے گا تو اثر بھی ہوگا۔ حکومتیں درست کام کریں گی تو عدالتوں میں مقدمات کا بوجھ بھی کم ہوگا۔ حکومتیں پولیس کو سیاسی کاموں پر لگاتی ہیں تو تنازعات عدالتوں ہی میں جائیں گے۔ اگر پولیس ایمانداری سے کام کرے تو کون عدالت جائے گا۔
زرداری صاحب نے موجودہ حکومت پر بھی تنقید کی ہے کہ اسے مرغی اور انڈوں کے سوا کچھ نہیں آتا۔ ان کا یہ خیال بھی غلط ہے، حکومت کو مرغی اور انڈوں کے بارے میں بھی کچھ نہیں معلوم، ہر کوئی مرغی اور انڈے نہیں سنبھال سکتا، دو دن میں ساری مرغیاں اور انڈے چٹ ہوجائیں گے اور ہاں اپنے سو دن کی جو تعریف وہ خود کررہے ہیں سب سے بڑا کارنامہ جنرل پرویز مشرف کی چھٹی کا بیان کررہے ہیں لیکن یہ چھٹی نہیں کرائی تھی بلکہ جنرل پرویز کی جان چھڑائی تھی، باعزت باوقار طریقے سے گارڈ آف آنر دے کر ملک سے روانہ کیا تھا۔ وہ بھی یقینی طور پر ڈیل تھی۔ ابھی تو بے نظیر کے قتل پر پردہ پڑا ہوا ہے، لیاقت باغ دو وزرائے اعظم کی قربانی لے چکا ہے اور کسی کے قاتلوں کو سزا نہیں ہوسکی۔ صرف ایک آدمی ایسے کاموں میں ملوث نہیں ہوتا پوری ٹیم ہوتی ہے سازشیوں کی۔ لیاقت علی خان تو پرانی بات ہوگئے لیکن بے نظیر تو تازہ واردات ہیں، اس کے بعد پیپلز پارٹی حکومت میں رہی، جب اس معاملے سے کوئی اور پردہ اٹھائے گا تو زرداری صاحب کو تکلیف ہوگی، تب بیان دینا پڑے گا۔ بہرحال اب میڈیا کو بھی کئی دن تک جھنجھنا مل گیا ہے، ملک کے معاشی مسائل پیچھے رہ گئے، ٹیکس وصولی میں کمی، گیس بحران، ڈالر کی قیمت، مہنگائی، بے روزگاری سب کو چھوڑ کر میڈیا پر زرداری کا بیان اور ردعمل کا ڈراما چل رہا ہے۔ یہ رویہ بھی بدلنا ہوگا۔