پاکستان میں انسانی وسائل کی ترقی

801

ڈاکٹر رضوان الحسن انصاری

پچھلے ہفتے محمد علی جناح یونیورسٹی کے شعبہ مالیات و معاشیات کے تحت پاکستان کے معاشی چیلنجوں پر ایک سیمینار کا انعقاد ہوا جس کے مقررین میں نامور کاروباری شخصیات اور تعلیمی ماہرین شامل تھے۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس و انڈسٹری جو پاکستان میں صنعت و تجارت کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم ہے اس کے وائس چیئرمین جناب زاہد سعید، شعبہ معاشیات کراچی یونیورسٹی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر محترمہ ڈاکٹر نورین مجاہد، محمد علی جناح یونیورسٹی کی فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن کے ڈین جناب شجاعت مبارک، ایف پی سی سی آئی کے تحقیق و ترقی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد بلال، ابتک ٹی وی چینل کے معروف اینکر علی ناصر اور راقم شامل تھے۔
مقررین میں سے ایک نے گفتگو کا آغاز اس طرح کیا کہ ہم عام طور پر پاکستان میں معاشی بحران و مشکلات اور منفی امور کا ذکر زیادہ کرتے ہیں، پاکستان مختلف زرعی اجناس کی پیداوار میں دنیا میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ مثلاً کپاس، چاول، گندم، دودھ کی پیداوار، گوشت اور اس کے علاوہ آم، کنو اور کھجور کی پیداوار میں دس بڑے ممالک میں شامل ہے، معدنی وسائل مثلاً کوئلہ، تانبا وغیرہ میں پاکستان کے ذخائر بھاری مقدار میں موجود ہیں۔ اس سلسلے میں ممتاز کاروباری شخصیت جناب زاہد سعید کا کہنا یہ تھا کہ زرعی وسائل اور معدنی وسائل سے زیادہ اہمیت انسانی وسائل کی ہے، باصلاحیت اور اعلیٰ مہارت کے حامل افراد نہ ہوں گے کہ ہمیں اپنے معدنی وسائل کو نکالنے کے لیے باہر سے افراد لانا پڑیں گے۔ یہی معاملہ زرعی پیداوار اور کاشتکاری و لائیو اسٹاک کا بھی ہے یہاں بھی اصل میں ضرورت تعلیم یافتہ اور تجربہ کار لوگوں کی ہے جو فی ایکڑ پیداوار بڑھاسکیں۔ بہترین لائیو اسٹاک کی پرورش کرسکیں۔ صورت حال یہ ہے کہ کپاس کی پیداوار میں ہم آگے ہیں لیکن ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ میں بنگلادیش اور ویت نام ہم سے آگے ہیں جہاں کپاس کی کوئی پیداوار نہیں۔ چناں چہ اس وقت تمام ہی ترقی پزیر ممالک اپنی افرادی قوت کی تربیت، بہتری، ترقی اور تعلیم پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں اور تعلیم و صحت پر بھاری فنڈ خرچ کررہے ہیں۔
انسانی وسائل کی ترقی میں پاکستان کا معاملہ بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے، مثلاً تعلیم پر اُٹھنے والے سرکاری اخراجات مجموعی قومی پیداوار (GDP) کا 2 فی صد سے بھی کم ہیں جب کہ بین الاقوامی معاہدوں کی رو سے یہ اخراجات 5 فی صد ہونے چاہئیں، اسی طرح صحت پر اُٹھنے والے اخراجات بھی 2.6 فی صد ہیں جنہیں بڑھانے کی ضرورت ہے۔ خواندگی کے کم سے کم معیار کے باوجود شرح خواندگی 60 فی صد ہے، یعنی 40 فی صد آبادی بالکل اَن پڑھ ہے۔ تعلیم و تربیت سے کوری ہے، تقریباً 70 فی صد بچے پرائمری اسکول میں داخلہ لیتے ہیں، اسی لیے یہ کہا جاتا ہے کہ ڈھائی کروڑ بچے اسکول جاتے بھی نہیں، سیکنڈری اسکول میں جانے والے بچوں کی شرح 41 فی صد رہ جاتی ہے۔ اسی طرح صحت، تعلیم اور آمدنی کو ملا کر ایک انڈکس بنایا گیا ہے جسے (Human Devploment Index) یا مختصر طور پر HDI کہتے ہیں اس کا پیمانہ صفر سے ایک تک ہے، ایک ملک انسانی وسائل میں جتنا بہتر ہوگا اس کا انڈکس 1 سے قریب ہوگا۔ سال 2017ء میں پاکستان کا HDI انڈکس 0.56 ہے۔ بظاہر یہ انڈکس درمیان میں ہے لیکن دنیا کے 189 ممالک میں پاکستان 150 ویں نمبر پر ہے، اس سے پاکستان میں انسانی وسائل کے معیار کا اندازہ باآسانی ہوسکتا ہے۔
دوسری بات جس کی سیمینار میں نشاندہی کی گئی وہ کاروباری لوگوں اور کاروباری سرگرمیوں کی اہمیت ہے۔ پاکستان میں کاروبار کو بے ایمانی، ٹیکس چوری اور دھوکا دہی سمجھا جاتا ہے حالاں کہ کاروباری سرگرمیاں بھی ملک کی معاشی ترقی کا ذریعہ بنتی ہیں، جن سے لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے اور روزگار کے مواقعے پیدا ہوتے ہیں اور عوام کو کئی اشیا اور خدمات کو استعمال کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اگر آج ہمارے ہاتھ میں موبائل فون ہے، گھر اور دفتر میں لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر ہے، گھر کے لاؤنج میں رنگین ٹی وی یا LCD ہے، کچن میں طرح طرح کے الیکٹرونک آلات ہیں، بلڈ پریشر، شوگر اور دیگر بیماریوں کے لیے بہتر ادویات بازار میں دستیاب ہیں، ائرکنڈیشنز، ڈیپ فریزر، آرائشی فرنیچر اور وال کلاک گھر کی آرائش و زیبائش میں اضافہ کرتے ہیں تو یہ سب کاروباری اداروں یا کمپنیوں کی تحقیق اور ترقی کی بدولت ہیں، چناں چہ حکومتی پالیسیاں ایسی ہونی چاہئیں جو کاروبار میں اضافہ کریں، اس میں آسانیاں پیدا کریں، اس سلسلے میں کاروبار میں آسانی (Ease of doivg business) ایک پیمانہ ہے جس میں پاکستان بہت پیچھے ہے اس میں ہمیں اپنا مقام بلند کرنا چاہیے۔
اسی طرح تعلیم کے حوالے سے بھی بات ہوئی، مجموعی طور پر ہمارے ملک میں تعلیم برائے ملازمت ہے، پہلے تمام طلبہ، ڈاکٹر یا انجینئر بننا چاہتے تھے آج ہر کوئی ایم بی اے یا کمپیوٹر ایجوکیشن کی طرف جارہا ہے، تعلیمی نصاب میں کوئی ہنر سکھانے کا کورس بھی ہونا چاہیے تا کہ طلبہ ہنر سیکھ کر اپنا کاروبار کرسکیں۔ آج کے دور میں بعض بڑی بڑی کمپنیاں ایک چھوٹے سے کاروبار ہی سے شروع ہوتی تھیں۔ آخر میں تمام مقررین اور شرکا نے اس بات پر اتفاق کیا کہ حکومت انسانی وسائل کی ترقی، تعلیم و صحت کی بہتری اور افرادی قوت کی صلاحیت اور استعداد میں اضافے پر توجہ دے تو بہت جلد ملک ترقی کے منازل طے کرسکتا ہے۔