افغان مسئلہ اور اعتماد کی کمی کا مرض

211

وزیر اعظم عمران خان نے پشاور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈومور کہنے والے اب ہم سے مدد مانگ رہے ہیں۔ پاکستان ہی نے امریکا اور طالبان کے درمیان براہ راست رابطہ کرایا ہے۔ عمران خان کی یہ بات خطے کے ایک طویل قضیے کے حل میں پاکستان کے مرکزی کردار کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ کیا عجب ہے کہ مدد طلب کرنا بھی ڈومور ہی کی ایک شکل ہو کیوں کہ پاک امریکا تعلقات میں ڈومور کا منتر اب اس قدر مستعمل ہو کر رہ گیا ہے کہ گویا دونوں کے درمیان اس کے سوا کہنے اور لینے دینے کو کچھ بھی باقی نہیں بچا۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب بات کرنے کا انداز کچھ بدلا بدلا سا ہے۔ مطالبہ وہی ہے صرف اصطلاحات تبدیل ہوگئی ہیں۔
سترہ برس پر محیط افغان جنگ کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان افغانستان کو حالات کی دلدل سے باہر نکالنے میں سب سے موثر بیرونی فریق ثابت ہو سکتا تھا اور یہ کام پاکستان کی اپنی قومی اور داخلی ضرورت بھی تھا کیوں کہ ایک رستا ہوا زخم پڑوسی کی حیثیت میں پاکستان کے لیے بھی ضرررساں تھا۔ امریکا افغانستان کی اصل حقیقت سے نظریں چراکر مسئلے کو پیچیدہ سے پیچیدہ تر بناتا رہا۔ طالبان ہمیشہ اس بات پر مصر رہے کہ وہ امریکا سے بات چیت کریں گے کیوں کہ افغانستان میں اصل قابض طاقت امریکا ہے۔ اس کے بیچ باقی سب مصنوعی اور امریکا کے تراشیدہ کردار ہیں۔ امریکا طالبان کا براہ راست سامنا کرنے کے بجائے اس حقیقت سے نظریں چراتا رہا۔ امریکا کی خواہش رہی طالبان کابل کے حکومتی سیٹ اپ کو قبول کرکے اسی کے ساتھ مذاکرات کریں۔ طالبان کے لیے یہ مطالبہ ناقابل قبول رہا۔ اس طرح افغان مسئلہ الجھتا چلا گیا۔ امریکا نے افغانستان میں ایک غیر متعلق کردار تخلیق کیا۔ یہ کردار بھارت تھا۔ بھارت کو افغان حکومت کا سرپرست اور معاون بنا دیا۔ پاکستان جو اس مسئلے کا اہم فریق اور متاثرین میں شامل تھا ایک منظم حکمت عملی کے تحت غیر متعلق بنایا جاتا رہا۔ پاکستان کو اس ساری صورت حال میں ایک ولن اور بھارت کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔ یہاں تک ایک بار پاکستان کے حساس ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا نے امریکی میگزین ’’ٹائم‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے معنی خیز انداز میں کہا تھا کہ امریکا افغان مسئلے پر ہر کسی سے بات کررہا ہے کبھی ہم سے بھی بات کرکے تو دیکھے۔ امریکا اس وقت انا کے گھوڑے پر سوا تھا وہ پاکستان کو مسئلہ اور بھارت کو مسئلے کا حل سمجھ رہا تھا۔ بھارت کو افغانستان میں امن سے زیادہ اس بات سے دلچسپی تھی کہ کس طرح پاکستان کو مغربی سمت سے گھیرا جائے اور افغان سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کیا جائے۔
پاکستان طالبان پر ایک حد تک اثر رسوخ کا حامل تھا اور اس کیفیت میں پاکستان نے طالبان پر اثر رسوخ استعمال کرکے انہیں مذاکرات کی میز پر لانے میں دلچسپی لینا چھوڑ دی۔ طالبان ایک لہر کی طرح افغان معاشرے میں پھیلتے اور سرایت کرتے چلے گئے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کا افغان علاقوں پر کنٹرول بڑھتا چلا گیا۔ پاکستان کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا کہ طالبان کو کچلنے کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی اس کا بہتر حل طالبان سے مذاکرات اور انہیں سیاسی دھارے میں واپس لانا ہے۔ جوں جوں افغان مسئلہ طویل ہوتا چلا گیا اس میں کئی نئے کردار اُبھرتے چلے گئے۔ علاقائی ممالک چین، روس اور ایران بھی طالبان کی حقیقت کے ساتھ رسم وراہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
امریکا اور طالبان کے درمیان رابطہ کرانے میں پاکستان کے جس کردار کا ذکر وزیر اعظم عمران خان نے کیا ہے وہ جہاں پاکستان کی قدر واہمیت کو ظاہر کرتا ہے وہیں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ’’مڈل مین‘‘ کے اس کردار کے بدلے پاکستان کو کیا حاصل ہوگا۔ ماضی میں پاکستان امریکا اور چین کے درمیان سہولت کار کا کردار ادا کرچکا ہے۔ اب امریکا کی پھنسی ہوئی گردن کو چھڑانے کے لیے پاکستان نے امریکا کا طالبان سے براہ راست رابطہ کراکے ایک بار پھر وہی کردار ادا کیا ہے۔ امریکا کے لیے یہ معمولی بات نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس مہربانی کے بدلے امریکا اپنی پاکستان پالیسی میں کوئی تبدیلی پیدا کرتا ہے یا طالبان کے ساتھ معاملات طے کرکے پاکستان کے خلاف اپنا روایتی معاندانہ رویہ جاری رکھتا ہے۔ دوسری طرف چین اسلام آباد اور کابل کو قریب لانے کے لیے ایک الگ مشق جاری رکھے ہوئے جس کا ایک مرحلہ تینوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی کابل میں ملاقات تھی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ایک وفد کے ہمراہ سہ فریقی مذاکرات میں حصہ لینے کے کابل پہنچے۔ امریکا جس افغانستان کو چھوڑ کرجانا چاہتا ہے وہاں دو دہائیوں سے بدترین قسم کی پاکستان مخالف فضاء بنادی گئی۔ پاکستان کلی طور پر طالبان سے بریکٹ ہو کر رہ گیا ہے اور طالبان مخالف کابل کا حکومتی نظام پاکستان کو ایک دشمن کی آنکھ سے دیکھ رہا ہے۔ دنیا طالبان کو نہیں کابل میں قائم حکومت کو تسلیم کرتی ہے، فیصلہ سازی پر اسی کا اختیار ہے، عالمی اور علاقائی معاہدات کا حق اسی کو حاصل ہے۔ اس طرح سو خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود افغانستان کا حکمران وہی کہلاتا ہے جو کابل کے سرکاری ایوانوں میں براجمان ہوتا ہے۔ خود مغربی طاقتوں کو ملاعمر کے اقتدار کی صورت میں اس ناپسندیدہ صورت حال سے نباہ کرنا پڑا ہے۔ طالبان جس قدر منظم اور بڑی فورس ہوں مگر وہ ایک ملیشیا ہی ہیں۔ ایسے میں کابل حکومت میں پاکستان کے لیے خیر سگالی کے ہلکے سے جذبات پیدا ہونا بھی مشکل ہے جب تک طالبان اور افغان حکومت دو انتہاؤں پر کھڑے رہیں گے۔
افغان مسئلے کی ایک جہت دونوں ملکوں کے درمیان یہ بداعتمادی اور مخاصمت ہے۔ چین اس بداعتمادی کو بدلنے کو مسئلے کے دائمی حل کی جانب ایک اہم قدم سمجھتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ اعتماد سازی کی ایک کمزور سی کوشش ہے۔ اعتماد سازی کسی مشورے اور مصنوعی عمل سے ممکن نہیں ہوتی یہ تجربات اور عملی رویوں کا نچوڑ ہوتا ہے۔ سترہ برس میں جس اعتماد کو مجروح کرنے کی سرتوڑ کوششیں ہوتی رہیں وہ دوچار ملاقاتوں او رچند اعلامیوں سے بحال ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ اعتماد کی کمی کا مرض اگر امریکا اور کابل حکومت کے تعلقات کو لاحق ہے وہیں یہ مرض کابل اور اسلام آباد کے تعلقات کو قریب المرگ بنائے ہوئے ہے۔