وسیم اختر مستعفی ہوں گے یا غیرقانونی مکانات گرائیں گے؟ 

187

عدالت عظمیٰ نے 12 دسمبر بدھ کو کراچی میں تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری رکھنے کا حکم دے دیا، چیف جسٹس نے حکم دیا کہ رفاہی پلاٹوں پر گھر، مارکیٹ کو 15 کے بجائے 45 دن کا نوٹس دیا جائے، اور سندھ حکومت آپریشن میں کے ایم سی کی 20 کروڑ روپے کی مدد کرے۔ عدالت عظمیٰ کے اس واضح حکم کے بعد حتمی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب رفاہی پلاٹوں کی چائنا کٹنگ کے ساتھ ہر طرح کی غیر قانونی تعمیرات منہدم کرنی پڑے گی۔ مگر ’’کیا میئر وسیم اختر رفاہی پلاٹوں پر بنائے گئے غیر قانونی گھروں کو توڑنے کے بجائے اپنے اعلان کے مطابق میئر کے عہدے سے استعفا دے دیں گے؟‘‘ چند روز قبل انہوں نے کچھ ایسا ہی بیان دیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ آخر وسیم اختر کو استعفے کی بات کرنے کی ضرورت کیوں پیش آ ئی تھی؟ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں کراچی کے لوگوں سے ہمدردی ہے۔ اللہ کرے کہ یہ تاثر درست ہو مگر دل و دماغ وسیم اختر اور ان کی پارٹی کی جانب سے مبینہ طور کی گئی یا کرائی گئی پلاٹوں کی چائنا کٹنگ کے واقعات کو دیکھ کر ایک لمحے کے لیے بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہے کہ وسیم اختر اور ان کی پارٹی کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے مکانات توڑنے کی مخالفت لوگوں سے ہمدردی کی وجہ سے کی ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ اگر رفاہی پلاٹوں پر کی گئی غیرقانونی تعمیرات یا تجاوزات کو منہدم کردیا گیا تو ان مقامات پر رہنے والے افراد کبھی بھی انہیں معاف نہیں کریں گے کیوں کہ ان سب کو یقین ہے کہ چائنا کٹنگ کے معاملات میں ان کی جماعت کے اپنے رہنماؤں اور ساتھیوں کا ہاتھ ہے۔ پلاٹوں پر چائنا کٹنگ اور قبضوں کے نتیجے میں کراچی سے لندن تک پھیلے ہوئے متحدہ کے نامی گرامی افراد آج ارب پتی بن چکے ہیں۔ پلاٹوں پر قبضوں کے حوالے سے ایف آئی اے اور نیب متحدہ کے رہنما کے بھائی چنوں میاں اور دیگر کے خلاف مقدمہ درج کرکے تحقیقات کرنے کے بعد چالان احتساب عدالت میں پیش کرچکی ہے۔
عدالت عظمیٰ کے واضح حکم کے نتیجے میں ایم کیو ایم کے بعض رہنما اس لیے بھی پریشان ہیں کہ انہوں نے خود بھی ان خلاف قانون تعمیرات میں سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ سب ہی لوگ جانتے ہیں کہ کھیل کے میدانوں اور پارکوں کی چائنا کٹنگ کرکے وہاں غیرقانونی مکانات تعمیر کیے جاچکے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے کم و بیش ایک سو آٹھ رفاہی پلاٹوں کی بندر بانٹ کی گئی۔ سب سے زیادہ پلاٹوں کی چائنا کٹنگ اور قبضے نارتھ ناظم آباد میں کیے گئے۔ اس کے بعد گلستان جوہر، نارتھ کراچی، کورنگی، سرجانی ٹاؤن اور بلدیہ ٹاؤن کے علاقوں کا نمبر آتا ہے۔ یہ سب کچھ 2006 سے 2012 کے درمیان کیا گیا۔ غیرقانونی اراضی کو قبضہ کرنے اور ان پر خلاف قانون پلاٹ تخلیق کرنے کے لیے سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے لینڈ مافیا کے کارندوں کی رہنمائی اس وقت کی سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کی سیاسی اور غیر سیاسی قیادت، محکمہ لینڈ، ماسٹر پلان اور اینٹی انکروچمنٹ کے ڈی اے اور کے ایم سی ونگ اور ایس بی سی اے و دیگر اداروں کے اہم عہدوں پر تعینات بدعنوان افسران کرتے رہے ہیں۔ چوں کہ اس دور میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی میں نہ صرف کے ڈی اے اور کے ایم سی اس کا حصہ تھے بلکہ حکومت سندھ کے محکمہ تعلیم اور کئی دیگر محکمے بھی سٹی گورنمنٹ کا حصہ تھے۔ اس لیے سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے افسران نہ صرف اپنی مرضی سے جس پوسٹ پر چاہتے تقرر کروا لیا کرتے تھے بلکہ ہر جائز اور ناجائز کام بھی کردیا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ کے ایم سی اور کے ڈی اے سروس کے افسران نے ایشیا کی تاریخ کی سب سے بڑی غیر قانونی کارروائی کرتے ہوئے ’’چائنا کٹنگ‘‘ کے نام سے کھیلوں کے میدان، پارکس اور پبلک بلڈنگ کے لیے مخصوص پلاٹوں پر نہ صرف قبضہ کیا بلکہ وہاں غیرقانونی مکانات بھی تعمیر کرلیے۔ کے ڈی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق لینڈ مافیا نے مسجد مدرسے اور اسکول و کالج کے لیے مخصوص کئی کئی ایکڑ رقبے کے پلاٹوں کو کاٹ کر چھوٹا کیا باقی حصے پر غیر قانونی مکانات دکانیں بنادیں۔ نارتھ ناظم آباد میں متحدہ کے ایک سابق رہنما اور وفاقی وزیر پورٹ اینڈ شاپنگ نے گرین بیلٹ پر ہی 14 منزلہ عمارت تعمیر کرلی۔
عدالت عظمیٰ کے حکم اور دلچسپی کے بعد اب قوم دیکھنا چاہتی ہے کہ سرکاری زمینوں کو ذاتی جاگیر سمجھنے والوں کو قانون کس طرح اپنی گرفت میں لیتا ہے؟ رفاہی پلاٹوں پر قبضہ کرکے یہاں چائنا کٹنگ کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ متحدہ قومی موومنٹ کے سرگرم لیڈر و کارکن تھے۔