سولہ دسمبر 71

224

یہ ان دنوں کی بات ہے جب اکتوبر 1954میں گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی توڑ دی تھی اور اس اقدام کو دستور ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین خان نے سندھ چیف کورٹ میں للکارا تھا۔ اس دوران جب چیف جسٹس کانسٹنٹائین کی عدالت میں مولوی تمیزالدین خان کا مقدمہ چل رہا تھا۔ ہم چند صحافی، میں، ڈان کے رپورٹر مشیر حسن، اے پی پی کے مظفر احمد منصوری اور جنگ کے اطہر علی چیف کورٹ کی کینٹین میں چائے پی رہے تھے۔ اتنے میں سابق وزیر تجارت فضل الرحمان جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا قریب سے گزرے۔ ہم نے ان کو اپنی میز پر بلایا اور سیدھا سوال کیا کہ اب کیا ہوگا؟ فضل الرحمان صاحب نے ایک لمحہ کے توقف کے بغیر جواب دیا۔ اب پاکستان ٹوٹ جائے گا۔ ہم سب ان کے اس جوا ب پر اچھل پڑے۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ کس بناء پر وہ یہ کہہ رہے ہیں؟ فضل الرحمان صاحب نے بلا کسی جھجک کے کہا کہ دستور ساز اسمبلی کی برطرفی کے پیچھے فوج کا ہاتھ ہے اور اب بہت جلد فوج ملک کے اقتدار پر قبضہ کر لے گی۔ فوج چوں کہ مغربی پاکستان کی ہے اس لیے مشرقی پاکستان کے عوام کے ذہنوں سے یہ حقیقت نہیں مٹائی جاسکے گی کہ مغربی پاکستان ان پر حکمرانی کر رہا ہے اور یہ بات مشرقی پاکستان کے عوام کے لیے ہرگز قابل قبول نہیں ہوگی وہ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور بالآخر پاکستان ٹوٹ جائے گا۔ ہم سب کا دل دھک سے رہ گیا اور ہم میں سے کوئی بھی فضل الرحمان صاحب کو نہیں للکار سکا۔ ابھی اٹھارہ سال بھی نہیں گزرے ہوں گے کہ پاکستان دو لخت ہوگیا۔
دوش آپ کتنا ہی ہندوستان کو دیں لیکن اس زمانہ میں یہ سب کو نظر آرہا تھا کہ مشرقی پاکستان سے سرحد پار کر کے مغربی بنگال جانے والے لا کھوں پناہ گزینوں کی آڑ میں مکتی باہنی کے تربیتی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ لیکن نہ جانے پاکستان کے فوجی حکمران یحییٰ خان کی کیا مصلحت حائل تھی کہ اس کے نتائج کے مداوے کے لیے کوئی راہ تلاش نہیں کی گئی اور نہ مشرقی پاکستان میں علاحدگی پسند ی کے طوفان کے سدباب کے لیے کوئی سیاسی اقدام کیا گیا۔
ان دنوں اقوام متحدہ کے کمشنر برائے پناہ گزین پرنس صدر الدین آغا خان سے میری لندن میں ملاقات ہوئی تھی۔ انہوں نے پناہ گزینوں کی رضا کارانہ واپسی کا جامع منصوبہ پیش کیا تھا جس کا ایک مقصد مشرقی بحران کے لیے مصالحت کی راہ ہموار کرنا تھا۔ اس وقت پرنس صدر الدین سخت دل برداشتہ تھے کہ پاکستان کی حکومت نے اس منصوبے کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی اور نتیجہ کہ ہندوستان نے اس منصوبہ کو آسانی سے سبوتاژ کر دیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مشرقی پاکستان سے گلو خلاصی کے لیے راہ ہموار کی جارہی ہے۔ اس بحران کے تصفیہ کے لیے سویت یونین کے طرف سے مصالحتی کوششوں کی جو پیشکش کی جارہی تھی وہ بھی ٹھکرائی جارہی تھی۔ ابھی تک میرے ذہن میں لندن میں اس زمانہ کے پاکستان کے منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیرمین ایم ایم احمد صاحب کی پریس کانفرنس کی یاد نقش سنگ کی مانند تازہ ہے۔ 1970 کے اوائل میں ایم ایم احمد صاحب پاکستان کے امدادی کنسورشیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے پیرس جانے سے پہلے لندن آئے
تھے۔ اور انہوں نے پاکستان ہائی کمیشن میں
پاکستانی صحافیوں کے لیے ایک پریس کانفرنس کی تھی۔ اس پریس کانفرنس میں وہ اپنے دو قریبی معتمد وں سر تاج عزیر اور ماجد علی صاحب کے جلو میں بیٹھے تھے۔ پاکستان کی معیشت کے بارے میں بات ہورہی تھی۔ اچانک ایم ایم احمد صاحب نے یہ کہہ کر سب صحافیوں کو اچھنبے میں ڈال دیا کہ مشرقی پاکستان، ملک کے لیے ذمے داری کا بوجھ Liability)) بن گیا ہے اور اگر پاکستان کو اس سے نجات مل جائے تو پانچ سال کے اندر اندر پاکستان اسکینڈے نیویا کے ملکوں کے برابر آجائے گا۔ میں نے اور میرے ساتھیوں نے سخت احتجاج کیا کہ ایم ایم احمد صاحب آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ ملک کے عوام کی اکثریت والے مشرقی پاکستان کو آپ Liability کہہ رہے ہیں جب کہ مشرقی پاکستان کے پٹ سن نے قیام پاکستان کے بعد ملک کی معیشت کو سہارا دیا تھا۔ پھر آپ قیام پاکستان کی جدوجہد میں مشرقی پاکستان کی کاوشوں کو یکسر فراموش کر رہے ہیں۔ ایم ایم احمد صاحب کو فوراً احساس ہوا کہ انہوں نے غلط بات کہہ دی ہے اور اس کی تاویلیں پیش کرتے رہے۔ لیکن مجھے اور میرے چند صحافیوں کے دل میں یہ پھانس اٹک گئی تھی کہ پاکستان میں ایسے عناصر ہیں جو اپنے مفادات کی خاطر مشرقی پاکستان سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ پھر 16دسمبر 71 کو جب ڈھاکا کے ریس کورس میدان میں جنرل نیازی نے جنرل جگ جیت سنگھ اروڑا کے ساتھ بیٹھ کر شکست نامہ پر دستخط کیے تو اس وقت لندن میں پاکستانیوں کو دھاڑئیں مار مار کر روتے دیکھ کر مجھے 1954میں فضل الرحمان صاحب کی پیش گوئی اور 1970میں ایم ایم احمد کی پریس کانفرنس بے حد یاد آئی۔
مجھے 1973میں ذوالفقار علی بھٹو سے لندن میں آخری ملاقات یاد آرہی ہے جب وہ برطانیہ کے سرکاری دورے پرآئے تھے۔ بھٹو صاحب سے میری اس زمانہ سے ملاقات تھی جب ابھی وہ سیاست میں نہیں آئے تھے اور برکلے یونیورسٹی سے فارغ ہو کر انہوں نے کراچی میں مشہور وکیل رام چندانی ڈنگو مل کے چیمبرز سے منسلک ہو کر وکالت شروع کی تھی۔ لندن کی یہ خاصی طویل ملاقات تھی۔ شرط ان کی یہ تھی کہ اس کے بارے میں ان کے جیتے جی ایک لفظ بھی باہر نہیں آئے گا۔ وہ نہ جانے کیوں ماضی کی یادوں کو بار بار کرید رہے تھے۔ مجھے بھٹو صاحب کے جاگیردارانہ انداز کا بخوبی احساس تھا کہ وہ اپنی کوئی مخالفت اور نکتہ چینی برداشت کرنے کے عادی نہیں تھے۔ مجھے اس رات ان کے نہایت سہل موڈ سے ہمت ہوئی اور دوسرے امور پر بے تکلف اور کڑے سوالات کے آخر میں یہ پوچھا کہ انہوں نے 71 کی جنگ میں فوج کی شکست پر فوجی حکمران یحییٰ خان کے خلاف مقدمہ کیوں نہیں چلایا۔ تھوڑی دیر مجھے گھورنے کے بعد انہوں نے کہا سچ بات یہ ہے کہ مجھ سے امریکیوں نے صاف کہہ دیا تھا کہ میں یحییٰ خان کو ہاتھ نہ لگاؤں کیوں کہ انہوں نے چین سے تعلقات کی استواری میں اہم رول ادا کیا ہے اور امریکی ان کا احسان مانتے ہیں۔ میں اس جواب پر ہکا بکا رہ گیا کہ ایک آزاد اور خودمختار ملک کا صدر امریکا کے سامنے اس قدر بے بس اور بے کس ہے۔ واپسی پر میں سوچتا آیا کہ در اصل خود بھٹو صاحب بھی ہرگز یہ نہیں چاہتے تھے کہ یحییٰ خان کے خلاف غداری کا مقدمہ چلے کیوں کہ بھٹو صاحب سے بھی اس مقدمے میں ان کے رول کے بارے میں جواب طلبی سے نہ بچ سکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ 71 کی جنگ کے بارے میں حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کو انہوں نے جیتے جی ہوا نہیں لگنے دی تھی۔