بھارت کے ریاستی انتخابات

133

گزشتہ دنوں بھارت کی تین ریاستی اسمبلیوں میں اکثریت حاصل کرنے والی انڈین نیشنل کانگریس کے ان تینوں ریاستوں کے لیے نامزد وزراء اعلیٰ نے پارٹی کے مرکزی راہنما راہول گاندھی اور کانگریس کے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کی موجودگی میں حلف اٹھا لیے ہیں۔ واضح رہے کہ کانگریس حال ہی میں بھارت کی پانچ ریاستوں میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں تین ریاستوں مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں ہندو انتہا پسند جماعت بھارتیا جنتا پارٹی کو شکست دے کر کامیابی حاصل کرچکی ہے جبکہ میزورام اور تلنگانہ کی دو دیگر ریاستوں میں کانگریس اور بی جے پی جیسی ملک گیر بڑی جماعتوں کے برعکس مقامی علاقائی جماعتوں کو نہ صرف برتری ملی ہے بلکہ یہ چھوٹی جماعتیں ان دو ریاستوں میں اپنی حکومتیں بنانے کی واضح پوزیشن میں بھی ہیں۔ راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ وسطی بھارت کے ہندی بولنے والے علاقے ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی ہندوستان کے دیگر علاقوں کی نسبت کافی کم ہے شاید یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں بی جے پی کا اثر ورسوخ ہندوستان کے دوسرے علاقوں کی نسبت کافی زیادہ ہے۔ ان ریاستوں میں 2014 کے عام انتخابات میں بی جے پی کو 225 میں سے 203 پارلیمانی نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔ یاد رہے کہ اول الذکر دونوں ریاستوں مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بھارتیا جنتا پارٹی پچھلے پندرہ سال سے مسلسل برسر اقتدار تھی اس لیے ان دونوں ریاستوں میں اس کی شکست کو نہ صرف ایک بڑے اپ سیٹ سے تعبیرکیا جا رہے بلکہ اس عبرت ناک شکست کو اگلے سال اپریل مئی میں منعقد ہونے والے قومی پارلیمانی انتخابات کے حوالے بھی ایک بڑا بریک تھرو قرار دیا جا رہا ہے۔ کانگریس کے جن وزراء اعلیٰ نے ان صوبوں میں بطور وزیر اعلیٰ حلف اٹھایا ہے ان میں مدھیہ پردیش کے لیے وزارت اعلیٰ کا قرعہ فال کانگریس کے کہنہ مشق اور وفادار 72سالہ کمال ناتھ کے نام نکلا ہے جو موجودہ انتخاب سے پہلے کانگریس کے ٹکٹ پر نو مرتبہ لوک سبھا کے رکن رہ چکے ہیں۔ مدھیہ پردیش میں حکومت سازی کے لیے کانگریس کو 116 ارکان کی ضرورت تھی جب
کہ یہاں اس کے 114 ارکان کامیاب ہوئے ہیں، کانگریس یہاں چار آزاد مارکان کے علاوہ دوچھوٹی پارٹیوں کے تین ارکان کوساتھ ملاکرحکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی ہے جب کہ بی جے پی کو یہاں 109 نشستوں پر کامیابی ملی ہے اس طرح وہ یہاں پندرہ سال سے قائم اپنی بالادستی کو تو برقرار رکھنے میں ناکام رہی ہے لیکن 109 ارکان کے ساتھ وہ یہاں اب بھی یقیناًایک مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ چھتیس گڑھ وہ دوسرا اہم صوبہ ہے جہاں کانگریس اپ سیٹ کرتے ہوئے بی جے پی کا پندرہ سالہ سحر توڑنے میں کامیاب رہی ہے جہاں اس کے حصے میں 68 نشستیں آئی ہیں یہاں کانگریس نے بھوپیش بھاگل کو وزیر اعلیٰ مقرر کیا ہے جنہوں نے گزشتہ روز اپنے عہدے کا حلف اٹھا کر صوبائی کابینہ کی تشکیل کے لیے صلاح مشورہ شروع کردیا ہے۔
بھارت کی متذکرہ بالا ریاستوں کے حالیہ انتخابی نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے صاف طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ 2014 میں جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے تب سے کانگریس کو ہر جگہ شکست کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔ یاد رہے کہ کانگریس نے ان انتخابات میں 20 فی صد سے کم مقبول ووٹ حاصل کیے تھے، جب کہ اسے پارلیمنٹ کی 543 سیٹوں میں سے صرف 44 سیٹیں ملی تھیں۔ بی جے پی نے ان متذکرہ ریاستوں کی 65 پارلیمانی نشستوں میں سے 62 سیٹیں حاصل کی تھیں۔ یہاں یہ بات محتاج بیان نہیں ہے کہ مدھیہ پردیش میں بی جے پی پندرہ برس سے حکمران تھی جب کہ راجستھان میں اسے حکومت کرتے ہوئے پانچ سال گزر گئے تھے۔ راجستھان میں ہمیشہ سیکولر قوتیں الیکشن جیتا کرتی تھیں، چنانچہ گزشتہ الیکشن میں جب یہاں سے بی جے پی جیتی تھی تو اس پر بہت سے لوگوں کو حیرانی ہوئی تھی۔ راجستھان گجرات کا پڑوسی ہونے کے باوجود ہندوتوا کی لہر سے محفوظ تھا، لیکن گزشتہ الیکشن میں اس ہوا نے اس روادار صوبے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا چنانچہ حالیہ شکست کا مطلب یہ لیا جا رہا ہے کہ راجستھان اپنی روایت کی طرف واپس پلٹ آیا ہے۔
کانگریس کی حالیہ فتح کے بارے میں سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کامیابی سے اگر ایک طرف پارٹی کے کارکنوں کو اعتماد حاصل ہوگا تو دوسری جانب اس مقبولیت سے پارٹی کے مرکزی راہنما اور مستقبل میں وزارت عظمیٰ کے مضبوط امیدوار راہول گاندھی کی ڈگمگاتی سیاسی شبیہ کو بھی تقویت ملے گی۔
سیاسی تجزیہ کار اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ کانگریس کی حالیہ کامیابی آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات میں اس کی ملک گیر فتح کی نوید بن سکتی ہے۔ بی جے پی کی حالیہ انتخابات میں شکست کے بارے میں یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ بی جے پی مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں چوں کہ چوتھی بار حکومت میں آنے کے لیے انتخابات لڑ رہی تھی اس لیے مقامی ووٹرز جو پہلے ہی سے تبدیلی کے موڈ میں تھے انہوں نے بی جے پی سے اکتاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کانگریس کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا جبکہ راجستھان کے عوام کا یہ ریکارڈ رہا ہے کہ وہ ہر بار برسراقتدار جماعت کو آؤٹ کرکے نئی پارٹی کو حکومت کا موقع دیتے ہیں۔ آئندہ سال کے انتخابات میں کانگریس کی علاقائی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد اور مختلف ریاستوں میں مختلف ریاستی پارٹیوں سے اس کے رابطے زیادہ اہمیت کے حامل ہوں گے لہٰذا بھارت کے حالیہ ریاستی انتخابات کے نتائج کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ 2019 کے عام انتخاب مسٹر نریندر مودی کی سیاسی قسمت کے حوالے سے ریفرینڈم ثابت ہوسکتے ہیں۔