شبِ ظلمت کی باتیں اور یادیں

195

برطانوی فضائی کمپنی برٹش ائر ویز نے دس سال بعد پاکستان کے لیے اپنی پروازوں کو بحال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اگلے سال سے برٹش ائر ویز کی پروازیں لندن سے اسلام آباد کے درمیان شروع کر دی جائیں گی۔ اس بات کا باضابطہ اعلان برطانوی سفیر، برٹش ائر ویز کے ذمے داروں نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے اووسیز پاکستانی زلفی بخاری کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری اور آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے اس فیصلے کو پاکستانی عوام اور سیکورٹی فورسز کی قربانیوں کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب پاکستان کو ترقی اور تبدیلی کے سفر پر آگے ہی آگے جانا ہے۔
برٹش ائر ویز کی طرف سے پروازوں کی معطلی کی طرح بحالی کی حیثیت بھی علامتی ہے۔ دس سال قبل ہونے والا فیصلہ بھی دنیا کے لیے ایک پیغام تھا اور آج ہونے والے فیصلے میں ایک پیغام مضمر ہے۔ برٹش ایر ویز کے اس فیصلے سے بیتے ہوئے دس برس پر محیط ایک شب دہشت اور شب ظلمت کی داستان یادوں اور تصور میں اُترنے لگی ہے۔ دس برس قبل پاکستان پر بہت کڑا وقت آن پڑا تھا۔ جب حکمران طبقات کی پالیسیوں نے حکمرانوں کو پورس کے ہاتھی بنا ڈالا تھا۔ پاکستان کے حکمران اپنے ملک میں دوسروں کی وکالت کر رہے تھے۔ ایک ایسی جنگ کی حمایت میں تاویلات اور توجیہات پیش کی جا رہی تھیں جس کا آغاز مشکوک اور درپردہ مفادات کے کسی کھیل کا حصہ تھا۔ افغانستان میں جنگ پورے زوروں پر تھی اور اس جنگ کو نہایت مہارت کے ساتھ پاکستان منتقل کرنے کی کوششیں ہو رہی تھیں۔ ناٹو، ایساف اور امریکا کی فوجیں پاکستان کے پڑوس میں لڑائی جاری رکھے ہوئے تھیں اور پاکستان کا بدترین دشمن بھارت افغانستان میں غیر محسوس انداز میں اپنا فوجی حلقہ اثر مضبوط بنا رہا تھا۔ پاکستان کو افغانستان سے زیادہ خطرناک ملک ثابت کرنا ضروری تھا۔
ایٹمی صلاحیت کے حامل اس ملک کو خانہ جنگی کا شکار ملک بنانا اور اس کے ایٹمی ہتھیاروں کو غیر محفوظ ثابت کرنے کی تھیوری روبہ عمل تھی۔ اُسامہ بن لادن زندہ تھے اور ان کی القاعدہ پوری قوت سے موجود تھی۔ طالبان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے چند میل کے فاصلے پر موجودگی کا ہوا بہت منظم انداز میں کھڑا کیا گیا تھا۔ بتایا یہ جارہا تھا کہ طالبان القاعدہ کی معاونت سے کسی بھی وقت شانگلہ کے پہاڑوں سے اُتر اسلام آباد سے ہوتے ہوئے کہوٹا کے ایٹمی پلانٹ پر قابض ہوجائیں گے اور وہ ایٹمی ہتھیار امریکا اور بھارت کے خلاف استعمال کریں گے۔ ایٹمی ہتھیاروں کو جوڑنے اور انہیں استعمال کرنے تک بے شمار مراحل ہوتے ہیں اور یہ کوئی دستی بم نہیں ہوتا کہ جس کی سوئی کھینچ کر مخالف کی جانب اُچھال دیا جائے۔ یہ جاننے کے باوجود ایٹمی ہتھیاروں کے غیرمحفوظ ہونے کی اس تھیوری کو فروغ اور تقویت دینے کے پیچھے یہ سوچ کارفرما تھی کہ پاکستان کا ایٹمی مواد لیبیا کی طرح ڈرموں میں بھر کو افغانستان کے راستے کہیں اور منتقل کیا جائے۔ اس تھیوری کی تشہیر کے لیے پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کیا جا رہا ہے۔ اس کے فعال ادارے ایک ایک کرکے بیٹھتے اور دیوالیہ ہوتے جا رہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا کہ پاکستان کے پاس ریاستی اور حکومتی سسٹم کو کھڑا کرنے کی صلاحیت ختم ہوچکی ہے۔ بین الاقوامی کھیلوں اور تجارت وسیاحت کے لیے اس ملک کو غیر محفوظ ثابت کرکے اس کی معیشت کے تابوت میں آخری کیلیں ٹھونکیں جا رہی تھیں۔ برٹش ائر ویز کی پروازوں کی بندش کے ایک سال بعد سری لنکن ٹیم پر لاہور میں حملہ ہوا اور اس نے پاکستان کی رہی سہی ساکھ کو ختم کر دیا اور بین الاقوامی کھیلوں کا پاکستان میں انعقاد خواب وخیال ہو کر رہ گیا۔ امریکا کے شہرہ آفاق رسالے ٹائم میگزین نے اسی دور میں اپنی ٹائٹل اسٹوری میں پاکستان کو دنیا کا خطرناک ترین ملک قرار دیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب عراق اور افغانستان کی خانہ جنگیوں میں روزانہ سیکڑوں نہیں تو درجنوں افراد مارے جا رہے تھے مگر اس کے باجود دنیا کا خطرناک ترین ملک پاکستان کو ثابت کرنے کے پیچھے اس ملک کی ساکھ کو عالمی سطح پر تباہ کرنا تھا۔ خطرات کا خوف پیداکرنے کی غرض سے امریکا اور دوسرے مغربی ممالک اپنے شہریوں کے لیے سفری کی وارننگ جاری کرتے رہتے۔ جس سے پاکستان کے نام ہی سے مغربی باشندوں کے بدن میں خوف کی جھرجھری پیدا ہوتی اور وہ اس ملک کا رخ کرنے سے توبہ کرلیتے۔ اس صورت حال میں پاکستان کے سرمایہ کار بنگلا دیش جیسے ملکوں اور جنوبی مشرقی ایشیائی ملکوں کی جانب بھاگ رہے تھے۔
اس تناظر میں برٹش ایر ویز کا پاکستان کے لیے اپنی پروازوں کی بندش کا فیصلہ اس بات کو تقویت دینے کے لیے کافی تھا کہ پاکستان ایک شورش زدہ ملک ہے۔ یہ وہ دن تھے جب ملک کی اس صورت حال کو اوونر شپ دینے والا کوئی نہیں تھا۔ حکمران فوج کی جانب اور فوج سیاست دانوں کی جانب دیکھ رہی تھی۔ اس کے بعد دس برس حالات کے اس جال کو توڑنے اور دلدل سے نکلنے میں بیت گئے۔ پاکستان کے عوام کے عزم نے منظر بدل ڈالنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ دہشت گردی کی پھیلائی ہوئی بساط کو پاکستان اور ریاستی اداروں نے دشمن ہی پر اُلٹ دیا اور اس کے نتیجے میں ملک میں امن امان کا ماحول پیدا ہوتا چلا گیا۔ پاکستان کے عوام اور فوج نے اس کے لیے اپنے لہو کا نذرانہ پیش کیا۔ دس برس بعد برٹش ائر ویز نے اپنا فیصلہ بدل دیا تو یہ منظر بدلنے کا عکاس ہے۔ اس فیصلے کی علامتی حیثیت وہی ہے جو دس برس پہلے تھی تب پاکستان تیزی سے منفی حوالوں سے پہچانا جارہا تھا اب مثبت حوالے پاکستان کی پہچان بن رہے ہیں۔ اس فیصلے سے دنیا کو یہ پیغام ملے گا کہ پاکستان میں امن لوٹ رہا ہے۔ پاکستان اب صنعت کاری، سیاحت کے لیے موزوں اور محفوظ ملک ہے۔ اس سے دوسرے بین الاقوامی اداروں اور ملکوں کو بھی پاکستان کے بارے میں اپنا تصور تبدیل کرنے کا موقع ملے گا۔