کشمیر کا مسئلہ مظالم نہیں الحاق پاکستان ہے

143

بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں صدر راج نافذ کر کے اپنی ناکامی کا باضابطہ اعتراف کرلیا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں تحریک حریت کے خلاف گرفتاریوں، تشدد، قید، شیلنگ، فائرنگ ، پیلٹ گن اور براہ راست فائرنگ سے بھارت نے کشمیریوں کے جذبہ حریت کو سرد کرنے کی کوشش کی۔ گورنر راج نافذکیا، فوج کی تعداد میں اضافہ کیا اور اب آخری حربہ صدر راج بھی نافذ کردیا ہے۔ کشمیری تحریک حریت نے ایک بار پھر کشمیری جوانوں میں نیا ولولہ پیدا کیا ہے اور حکومت پاکستان بھی اس کی وجہ سے متحرک ہونے پر مجبور ہوگئی ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پہلے کبھی پاکستانی حکومت اور عوام کی وجہ سے کشمیری قوت حاصل کرتے تھے لیکن اس مرتبہ کشمیریوں کی جدوجہد نے پاکستان ، او آئی سی اور عالمی اداروں میں حرکت پیدا کی ہے۔ لیکن کیا محض حرکت پیداہونے سے کچھ ہوگا؟ یہ ادارے نشستند گفتند برخاستند سے آگے کچھ نہیں کرتے ، ایک قرار داد یا مشترکہ اعلامیہ بھارت کو نہیں روک سکتا۔ اسے مظالم سے روکنے اور کشمیر کا مسئلہ حل کرانے کے لیے اقدامات ضروری ہیں۔اقوام متحدہ سے جب بھی بات کی جاتی ہے بھارتی مظالم کو رکوانے کی بات کی جاتی ہے۔ اس مرتبہ بھی پاکستانی وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے رابطہ کر کے بھارت کی جانب سے قتل عام رکوانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اور اگر کوئی سنجیدہ کام ہونے لگتا ہے تو امریکا اور بڑی طاقتیں اسے رکوا دیتی ہیں۔ کشمیریوں نے ہزاروں جانوں کی قربانی دے کر اس مسئلے کو ازسرنو زندہ کردیا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ صرف بھارتی تشدد، ظلم اور قتل و غارت رکوانے پر توجہ مرکوز رہے گی۔ ایک روز قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی یہ مطالبہ کرچکے ہیں کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں ظلم و ستم بند کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں ۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ یہ ظلم و ستم کیوں ہو رہا ہے ۔ بھارت نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیا اس قبضے کو اپنی فوج کے ذریعے مستحکم کیا اور پھر مظالم کے ذریعے آواز دبانے کی کوشش کی ۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ مسئلے کے اہم فریق پاکستان کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ۔ کشمیر کا مسئلہ مظالم نہیں بلکہ یہ مظالم جس مسئلے کی وجہ سے ہور ہے ہیں وہ مسئلہ حل کرنا ضروری ہے ۔ اور جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو گا یہ مظالم جاری رہیں گے کیونکہ کشمیریوں نے تو فیصلہ کرایا ہے کہ ایک ایک کشمیری جان دے دے گا لیکن بھارت کے ساتھ نہیں رہے گا۔ بھارت بھی جانیں لے لے کر تھک گیا ہے لیکن کشمیری ایک ہی نعرہ لگا رہے ہیں کہ کشمیر بنے گا پاکستان۔۔۔ پاکستانی حکمرانوں کی ذمے درای ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے ذریعے جلد از جلد حل کرائیں ۔ بھارت کشمیر میں ہندو پنڈتوں کو بسانے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ وہاں آبادی کا تناسب تبدیل کر ایا جائے یعنی بھارت اپنے قبضے کے باوجود اقوام متحدہ کی جانب سے مستقبل میں کسی قسم کے فیصلے اور استصواب رائے کی بھی تیاری کر رہا ہے جبکہ پاکستان میں اکثر کشمیریوں کی قربانیوں کو ضائع کرنے والے کام کیے گئے ہیں ۔ ایسا نہ ہو کہ مظالم بند کرانے کی آڑ میں مذاکرات کیے جائیں اور جنرل پرویز مشرف کی طرح دوستی بس ، تجارتی وفود ، ثقافتی طائفے اور فنکاروں اور طلبہ کے ویزوں کی باتیں شروع ہو جائیں ۔ کشمیر کامسئلہ بس سروس اور تجارت نہیں ہے ۔ یہ پاکستان کا حصہ تھا اور رہے گا ۔ پاکستانی حکمرانوں میں دم ہے تو اس موقف کا دو ٹوک اظہار کریں اور کشمیریوں کے جذبات سے نہ کھیلیں ۔ اب جب بھی کشمیر پر مذاکرات کیے جائیں صرف الحاق پاکستان کے مسئلے پر کیے جائیں استصواب کی بات کی جائے ۔ استصواب نہیں تو بس سروس ، ویزے ، تجارت اور ثقافتی وفودکی کوئی اہمیت نہیں ۔ لوگ ان چیزوں کے لیے قربانی نہیں دے رہے ۔ بہت ہو گیا قوم کو بے وقوف بنا بنا کر کب تک کام چلائیں گے ۔ ہمارے حکمرانوں کا معاملہ ہی الگ ہے جو لوگ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی میں تھے وہ تحریک انصاف کی حکومت میں آ کر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے خلاف کارروائیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں ۔ پھر کشمیر کی طرف کون توجہ دے گا ۔ دوسری طرف بھارتی سیاسی جماعتوں کا رویہ سامنے ہے ۔ کانگریس ہو یا بی جے پی ۔۔۔ یا پھر مختلف سیاسی جماعتوں کا اتحاد ۔ وہاں سے کبھی تھرڈ آپشن کی آواز نہیں آئی یہ پاکستانی سیاستدان ہی ہیں جو تھرڈ آپشن یا کشمیر کے ٹکڑے کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ کیا ہمارے سیاستدانوں کو ان کے لیڈر تاریخ نہیں بتاتے۔۔۔ انہیں خود تاریخ معلوم ہو تو بتائیں۔یہ بہت تشویش ناک بات ہے کسی روز کوئی وزیر خارجہ یا وزیر اعظم اسمبلی میں کھڑا یہ نہ کہہ رہا ہو کہ خون خرابا بہت ہو گیا۔ بس کرو کشمیر بھارت ہی کے حوالے کر دو ۔۔۔ انسانیت کے نام پر یا امن کے نام پر یہ ڈراما بھی کھیلا جا سکتا ہے۔ کہاں کہاں توجہ دلائی جائے ۔ قوم جاگے گی تو کچھ ہو گا۔۔۔