سیاسی جماعتیں خود کشی پر تل گئیں

218

ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان کی اہم قومی سیاسی پارٹیاں ملک کو انار کی کی طرف دھکیلنے کا فیصلہ کر چکی ہیں اور سیاسی خود کشی پر تلی ہوئی ہیں ۔ بظاہر یہ جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف محاذ بنا کر میڈیا میں خوب جگہ حاصل کر رہی ہیں لیکن یہ نتائج سے آگاہ نہیں ہیں ۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف دونوں ایک دوسرے کے سر براہوں کو نا اہل قرار دلوانے کے لیے کوشاں ہیں ۔ یہ دونوں پارٹیاں اسمبلی میں بڑی اہمیت رکھتی ہیں اس طرح ن لیگ نے میاں نواز شریف کی ممکنہ گرفتاری کے خدشے کے پیش نظر سڑکوں کا راستہ اختیار کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ مسلم لیگ نے ہنگامی اجلاس میں24 دسمبر کو نواز شریف کو گرفتار کیے جانے کی صورت میں سخت رد عمل دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ بالفرض تحریک انصاف کی کوشش کا میاب ہو گئی اور آصف زرداری نا اہل قرار پا گئے تو کیا پیپلز پارٹی خاموش بیٹھ جائے گی اور جیسا کہ آثار نظر آ رہے ہیں وفاقی وزراء پہلے ہی عدالتی فیصلوں کا اعلان کر چکے ہیں کہ نواز شریف بھی جیل جار ہے ہیں تو کیا مسلم لیگ ن خاموش بیٹھے گی؟ اسی طرح پی ٹی آئی کے سربراہ کے خلاف اگر کسی وجہ سے الیکشن کمیشن یا نیب میں اپوزیشن کی کوئی کوشش کامیاب ہو گئی تو نتیجہ کیا ہوگا؟ ظاہری بات ہے اس ساری صورتحال کے نتیجے میں ملک میں انتشار کی کیفیت پیدا ہو گی۔ اسمبلی سینیٹ اور میڈیا کے ساتھ ساتھ سڑکوں پر بھی بد امنی کی کیفیت ہو گی ۔ اس کے نتیجے میں طالع آزماؤں کو موقع ملے گا۔ لیکن اس سارے معاملے کا ایک اور پہلو بھی ہے وہ یہ کہ اس شور شرابے کے نتیجے میں تینوں پارٹیوں میں موجود کرپٹ عناصرکو پناہ مل جائے گی۔ سارا شور میاں نواز شریف اور زرداری کے خلاف ہوگا یہ دونوں عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف ہنگامے کریں گے اور عوام سارا دن ٹی وی دیکھیں گے۔ عوامی مسائل، پیٹر ول، بجلی، گیس کی قیمتیں، مہنگائی، روزگار، انصاف، پولیس گردی وغیرہ سب سے لوگوں کی نظریں ہٹا دی جائیں گی۔ لیکن یہ عارضی خوشی ہوگی۔ یہ سارے سیاسی شعبدے باز اس بات پر خوش ہوں گے کہ انہیں کچھ دن اور مل گئے لیکن ہر آنے والا دن عوام کے مسائل میں اضافہ کررہا ہے۔ حکومت جس کو اچھی خبر کہہ رہی ہے وہ کسی ملک سے ملنے والا قرضہ یا ازاراہ ترحم دی گئی رقم ہوتی ہے۔ سعودی عرب سے امداد مل گئی، امارات سے رقم مل گئی، چین سے ملنے والی ہے یا آئی ایم ایف سے معاملات طے ہورہے ہیں ان میں سے کوئی چیز ملک کو مستحکم کرنے والی نہیں ہے۔ یہ سب کام ملک کو مزید مقروض کرنے والے اور مسائل کو مزید الجھانے والے ہیں۔ یہ سوال بالکل بجا ہے کہ اپوزیشن اور حکومت فیصلہ کریں کہ انہیں اپنے مسائل حل کرنے ہیں یا عوام کے۔۔۔ ان کے رویے سے لگ رہا ہے کہ دونوں ہی اپنے ذاتی ایجنڈے پر کار فرما ہیں۔ سنجیدہ سیاسی رہنما جو اب معدودے چند رہ گئے ہیں کہتے ہیں کہ عوامی مسائل پر سنجیدگی سے غور نہ کیا تو سارا نظام لپیٹ دیا جائے گا۔ اسے محض مذاق یا سیاسی تبصرہ نہ سمجھا جائے۔ بلکہ اس بات کے آثاربھی نظر آرہے ہیں۔ عدلیہ ضرور متحرک ہے لیکن طاقت کے مراکز اور وردی کے معاملے میں وہاں بھی احتیاط ہے۔ اگر سیاسی اور جمہوری نظام ریموٹ کنٹرول سے چلے گا تو خرابیاں ضرور پیدا ہوں گی۔ اور اگر سیاست میں غیر سیاسی قوتیں کودیں گی تو بھی خرابیاں پیدا ہوں گی بلکہ خرابیوں کا سبب بھی یہی ہے کہ غیر سیاسی قوتیں طاقت کے بل پر سیاست میں کود جاتی ہیں اور جب سب کچھ تباہ ہو جاتا ہے تو انتخابی کھیل شروع کردیا جاتا ہے۔ خدا خدا کرکے سیاسی عمل بحال ہوا ہے اسے تسلسل سے چلنے دیا جائے۔ رفتہ رفتہ بہتری آجائے گی لیکن ٹانگ اڑانے سے ٹانگ ٹوٹ بھی سکتی ہے۔ اس کا ہر فریق کو خیال رکھنا چاہیے۔ جن لوگوں کے ہاتھ میں حکومت ہے اگر وہ کانے بھی ہیں تو بھی دباؤ میں نہ آئیں سیاسی نظام کو بچائیں۔ یہ کہنا کہ فلاں بہت بدعنوان ہے سیاسی رہنماؤں کے بارے میں بڑا آسان ہے۔ یہ سیاست دان ہمت کریں اور وہ بات ریکارڈ پر لائیں جو نجی محفلوں میں کرتے ہیں۔