یوٹرن سے مڈٹرم!

185

ان دونوں رانا ثنا اللہ ٹی وی دانش وروں کی دانش وری کی زد میں ہیں، ان کے ایک سابق بیان کو تضحیک و تحقیر کا ہدف بنایا جارہا ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان چھے ماہ بعد حکومت چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں اور حامیوں کا کہنا ہے کہ رانا ثنا اللہ ذہنی اعتبار سے نارمل نہیں رہے، نواز لیگ کی شکست نے انہیں ذہنی اور دماغی طور پر شکست وریخت سے دوچار کردیا ہے۔ چلیے! مان لیا کہ الیکشن سے شکست کھانے کے بعد نواز لیگ دماغی طور پر کمزور ہوگئی ہے مگر دیگر سیاسی جماعتیں اور پیپلز پارٹی بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کررہی ہیں۔ کیا وہ بھی ذہنی توازن کھو بیٹھی ہیں؟۔ سابق صدر مملکت آصف علی زرداری تو ڈنکے کی چوٹ پر یہ منادی کررہے ہیں کہ ہمیں حکومت گرانے کا شوق اور نہ کوئی دلچسپی ہے، ہم جمہوریت پرور لوگ ہیں، عمران خان منتخب وزیراعظم ہیں، انہیں پانچ سال حکومت کرنے کا حق ہے مگر ان کے بیانات اور طرز حکمرانی سے ظاہر ہورہا ہے کہ وہ اپنی مدت پوری نہیں کرسکیں گے۔ ان حالات میں کوئی بھی باشعور سیاست دان حکومتی معاملات میں مداخلت کرکے بدنام ہونا پسند نہیں کرے گا۔ عمران خان کی حکومت ہماری جمہوریت پسندی کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے جس دن یہ بیساکھی ہٹی حکومت بھی ہٹ جائے گی۔
کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ چین جیسے مخلص دوست نے بھی قرض دینا پسند نہیں کیا کہ وہ بھی عمران خان کی حکومت سے مطمئن نہیں۔ اسی اثنا میں وزیر اعظم عمران خان نے مڈٹرم الیکشن کے امکان کا اظہار کردیا۔ میاں نواز شریف نے کہا۔ بسم اللہ۔ ہم تیار ہیں۔ آصف علی زرداری نے عمران خان اور میاں نواز شریف کے بیانات کا جائزہ لیا تو انہیں سازش کی بُو محسوس ہوئی، افواہ کی کوکھ بڑی زرخیز ہوتی ہے۔ افواہ ساز قریب سے بھی گزر جائے تو خبر جننے میں دیر نہیں کرتے۔ حالات اور واقعات بتارہے ہیں کہ عمران خان کو لانے والے سخت مایوسی کا شکار ہیں مگر عمران خان بہت مطمئن ہیں ان کے پاس ہر خرابی کا ایک ہی جواب ہے اور وہ یہ کہ اگر اکثریت سے کامیابی دلائی جاتی تو مانگے تانگے کے ارکان اسمبلیوں کی ضرورت پڑتی نہ کسی دباؤ کا شکار ہونا پڑتا۔ اس پس منظر میں یہ منصوبہ خارج ازامکان نہیں کہ مڈٹرم الیکشن کراکے بھاری اکثریت سے تحریک انصاف کو پھر مسلط کردیا جائے مگر مہنگائی، بے روزگاری اور بے گھری نے عوام کو عمران خان سے مایوس کردیا ہے سو، یہ سوچنا کہ انتخابات کو موم کی ناک بنایا جاسکتا ہے، امکانات کے دائرے میں فٹ نہیں آتا۔ یوں بھی مڈٹرم الیکشن ملکی معیشت کو مزید تباہ کرنے کے مترادف ہے سو، اس بارے میں سوچنا ذرا مشکل ہے البتہ قومی حکومت کے امکانات کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ ہم ایک مدت سے گزارش کررہے ہیں کہ ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے قومی حکومت تشکیل دی جائے۔ ایک ایسی حکومت جو ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو فوقیت دے، قومی خزانے کو خالی کرنے کے بجائے اس میں اضافہ کرے، تنخواہوں اور مراعات کے حصول کے لیے تگ و دو نہ کرے بلکہ قومی دولت کی حفاظت اور ملک کی خدمت کو اپنا قومی قرض سمجھے۔ وطن عزیز میں ایسے دیانت دار افراد کی کمی نہیں جو بغیر معاوضے کے قومی خدمت سرانجام دینے کو قومی فریضہ سمجھتے ہیں۔ تحریک انصاف میں بھی ایسے افراد کی کمی نہیں جو قومی خزانے کو شیر مادر کی طرح پیتے رہے ہیں جو لوگ ملکی معیشت کو کمزوری کا سبب رہے ہوں وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ وطن عزیز کی معیشت مضبوط ہو، کیوں کہ معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے قومی خزانے سے لیا ہوا قرض واپس کرنا پڑے۔
چیف جسٹس پاکستان اگلے ماہ اپنے عہدے سے سبکدوش ہوجائیں گے اور ان کے ڈیمز سے متعلق احکامات رفتگاں کی صف میں جاکھڑے ہوں گے سو، لازم ہے کہ سکھ کمیونٹی کی پیش کش کو قبول کرلیا جائے۔ سکھ کمیونٹی کا کہنا ہے کہ اگر حکومت پاکستان بابا گرونانک کے نام سے یادگاری ٹکٹ جاری کردے تو وہ ایک ڈیم کے تمام اخراجات ادا کرنے کو تیار ہیں۔ یہ ایک خوش آئند پیش کش ہے اسے تسلیم کرلینا چاہیے۔ اس ضمن میں یہ حوالہ بہت اہم ہے کہ ایک ایسے شخص کے نام سے یادگاری ٹکٹ جاری کیا جاچکا ہے جو پاکستان کو گناہ کہتا تھا اگر پاکستان کو گناہ قرار دینے والے کے نام سے یادگاری ٹکٹ جاری ہوسکتا ہے تو بابا گرونانک کو اس اعزاز سے کیوں محروم رکھا جائے!!؟؟