امریکا کی ایک اور پسپائی

292

امریکا نے شام کے بعد افغانستان سے بھی پسپائی اختیار کرلی ہے اور طالبان کا دیرینہ مطالبہ تسلیم کرلیا ہے کہ غیر ملکی افواج نکلیں گی افغانستان میں امن قائم ہوگا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے زبانی احکامات جاری کیے ہیں کہ افغانستان سے 7 ہزار فوجی واپس بلائے جائیں۔ صدر ٹرمپ شام سے مکمل انخلاء کا اعلان پہلے ہی کر چکے ہیں۔ ان کے اس اقدام پر روس کے صدر پیوٹن نے تبصرہ کیا ہے کہ شام میں امریکی موجودگی نہ صرف غیر قانونی تھی بلکہ امن کی راہ میں رکاوٹ تھی۔ جہاں تک شام کا تعلق ہے وہاں بھی امریکا نے دعویٰ کیا ہے کہ ہم نے داعش کا خاتمہ کردیا ہے۔ اس لیے جارہے ہیں شام کی ضرورت یہ ہے کہ اب روس اور دیگر ممالک کو بھی شام سے نکل جانا چاہیے غیر ملکی افواج جہاں رہیں گی بدامنی ہی ہوگی۔ امریکیوں نے افغانستان سے انخلاء کے بارے میں بھی یہی دعویٰ کیا ہے کہ ہم نے طالبان کا صفایا کردیا ہے اور ابوظبی میں مذاکرات بھی طالبان سے ہورہے ہیں۔ امریکی وزیر دفاع شام میں فوجی موجودگی برقرار رکھنے پر صدر کو قائل کرنے میں ناکامی پر مستعفی ہوگئے ہیں۔ امریکی حکام کا معاملہ یہ ہے کہ جب بھی کسی ملک میں فوجی کارروائی کرتے ہیں وہاں سے کامیابی کے دعوے کرکے نکل آتے ہیں اور انتشار کے ایسے بیج بوتے ہیں کہ وہاں مستقل بدامنی رہتی ہے برسوں لگ جاتے ہیں امن کے قیام میں۔ امریکی دعوؤں کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ جب تک تصدیق نہ ہو جائے ان کو تسلیم نہ کیا جائے۔ ابھی تو ٹرمپ نے زبانی احکامات دیے ہیں۔ اس حکم پر عملدرآمد میں 3 ماہ لگنے کی توقع ہے۔ 3 ماہ میں ٹرمپ کون کون سے یو ٹرن لیتے ہیں اس بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔ امریکی حکام کسی بھی وقت اپنے وعدے سے مکر سکتے ہیں لیکن بات اب امریکیوں سمیت تمام غیر ملکی افواج کی سمجھ میں آچکی ہے کہ افغانستان میں آئندہ بھی کبھی نہیں داخل ہوں گے۔ کیونکہ یہ بات تیسری مرتبہ ثابت ہو چکی ہے کہ افغانستان پر غیر ملکی فوج حکمرانی نہیں کر سکتی۔ اس طرح امریکیوں اور دیگر اتحادی ممالک کو یہ بھی سمجھ میں آگیا ہوگا کہ جس طرح شام میں امریکی موجودگی غلط تھی اسی طرح دیگر ممالک کی موجودگی بھی غلط ہے۔ امریکا کے جانے سے کم ازکم یہ تو ہوگا کہ بمباری کرنے والی ایک فوج کم ہو جائے گی۔ روس اور دیگر ممالک کی افواج کو بھی شام سے نکل جانا چاہیے، خطے کا امن غیر ملکی فوجی کارروائیوں سے ممکن نہیں۔ امریکا نے اس سے قبل غلط بیانی کرکے عراق پر حملہ کیا اور پورا خطہ تباہ کرکے رکھ دیا وہاں سے انخلاء کے وقت بھی یہی دعویٰ کیا گیا کہ القاعدہ کا خاتمہ کردیا، صدام کا خاتمہ کردیا لیکن عراق سے امریکی انخلاء کے ایک عشرے بعد بھی وہاں امن قائم نہیں ہوسکا، کیونکہ عراق میں گھسنے کا بیان بھی غلط تھا اور وہاں سے نکلتے وقت کے دعوے بھی غلط تھے۔ بہرحال افغانستان سے نصف فوج نکالنے کے امریکی اعلان میں پاکستانی کامیابی بھی شامل ہے کیونکہ پرامن افغانستان پرامن پاکستان کی ضمانت ہے۔ غیر ملکی افواج نے گزشتہ 40 برسوں میں افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کو بھی متاثر کیا اور خصوصاً امریکا نے افغانستان میں بھارتی عمل دخل پیدا کرکے ایک نئی مشکل کھڑی کردی ہے۔ لیکن بھارتی بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ جن افغانوں کے سامنے امریکا نہیں ٹھہر سکا وہ ان کا ایک دن بھی مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اس لیے بھارتی ایجنٹوں اور جاسوسوں کی جان پر بھی بنی ہوئی ہے۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کی باتیں تو کئی سال سے ہو رہی تھیں لیکن اتفاق سے یہ اعزاز عمران خان کی حکومت کو ملا۔ وزیراعظم نے کہا تھا کہ افغان مسئلے کے حل کے لیے ہم جو کر سکتے تھے کردیا۔ یہ صحیح ہے کہ پاکستان نے اپنے حصے کا کام کیا اور اگر امریکی افغانستان سے اگلے 3 ماہ میں نکل جاتے ہیں تو باقی افواج بھی زیادہ عرصے نہیں ٹک سکیں گی۔ پاکستانی حکومت لگے ہاتھوں کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے بھی ایسی ہی کوششیں کرے۔ کیا ضروری ہے کہ کشمیری حریت پسند بھی طالبان کی طرح کے اقدامات کریں اور بھارت کشمیر سے فوج نکالنے پر تیار ہو جائے۔