یہ مذہبی نہیں سماجی مسئلہ ہے؟

308

مگر جن ہزاروں کاموں کے سلسلے میں قرآن و حدیث میں واضح رہنمائی موجود ہے اور جہاں رسول اکرمؐ نے کسی سے یہ نہیں فرمایا کہ تم چاہو تو اپنی پسند سے کام کرلو ان تمام کاموں کے سلسلے میں غامدی صاحب اور ان کے شاگردوں کو بہرحال اسلام کی بالادستی کو تسلیم کرنا ہی ہوگا۔
خورشید ندیم نے زیر بحث اقتباس میں یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ خود مذہب بھی ہم سے ہر معاملے کو مذہبی نکتہ نظر سے دیکھنے کا مطالبہ نہیں کرتا۔ یہ اسلام پر لگایا جانے والا ایک بہت ہی بڑا الزام بلکہ بہتان ہے اس لیے کہ قرآن پاک صاف کہتا ہے اللہ کی اطاعت کرواور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو۔ قرآن و حدیث میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ صرف عقاید، عبادات اور اخلاقیات میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو۔ اتفاق سے رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہؐ کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی ہر چیز امت کی رہنمائی کے لیے محفوظ کرلی گئی ہے۔ چناں چہ امت مسلمہ ہر دائرے میں صدیوں سے سیرت طیبہؐ کی پیروی کررہی ہے اور جہاں اس سے پیروی نہیں ہورہی وہاں وہ اس احساسِ جرم کا شکار ہے کہ وہ سیرت طیبہؐ کی پیروں کا حق کیوں ادا نہیں کررہی؟ حضور اکرمؐ نے ریاست بھی قائم کی اور سیاست بھی کی۔ جہاد بھی کیا اور معاہدے بھی کیے۔ تجارت بھی کی اور شادیاں بھی کیں۔ آپؐ شوہر بھی تھے اور والد بھی۔ آپؐ دوست بھی تھے اور پڑوسی بھی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان آپؐ کے کردار کے ہر پہلو کے عاشق ہیں اور اسے زندگی کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو غامدی صاحب اور خورشید ندیم صاحب صرف کھجور کاشت کرنے میں آزاد ہیں۔ رہی امت تو اسے اس سلسلے میں بھی آزادی مطلوب نہیں اس لیے کہ امت اس پورے واقعے کو کسی اور نظر سے دیکھتی ہے۔
غامدی صاحب اور ان کے شاگرد عقل، عقل بہت کرتے ہیں۔ زیر بحث کالم میں بھی خورشید ندیم صاحب نے فرمایا ہے کہ زندگی کے معاملات میں رہنمائی کے لیے عقل کافی ہے۔ علامہ اقبال غامدی صاحب سے ایک ہزار گنا اور خورشید ندیم سے ایک لاکھ گنا بڑے آدمی ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں وہ عقل کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔
آہ یہ عقلِ زیاں اندیش کیا چالاک
اور تاثر آدمی کا کس قدر بیباک ہے
…….
ہے ابد کے نسخہ دیرینہ کی تمہید عشق
عقلِ انسانی ہے فانی زندۂ جاوید عشق
…….
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
…….
عقل گو آستاں سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
…….
تڑپ رہا ہے فلاطوں میانِ غیب و حضور
ازل سے اہل خرد کا مقام ہے اعراف
…….
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے منزل نہیں ہے
…….
وہ پرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں
عشق سیتا ہے انہیں بے سوزن و تارِ رفو
…….
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی
…….
عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بت کدۂ تصورات
…….
عقل عیار ہے سو بھیس بنالیتی ہے
عشق بیچارہ نہ ملّا ہے نہ زاہد نہ حکیم
…….
عقلِ بے مایہ امامت کی سزا وار نہیں
راہبر ہو ظن و تخمیں تو زبوں کارِ حیات
…….
تازہ مرے ضمیر میں معرکہ کہن ہوا
عشق تمام مصطفےٰ، عقل تمام بولہب
آئیے شمار کریں اقبال نے عقل پر کتنے الزامات لگائے ہیں۔ (1) عقل زیاں اندیش یعنی نقصان کے اندیشے میں مبتلا رہنے والی ہے۔ (2) عقل چالاک ہے۔ (3) عقل فانی ہے۔ (4) عقل کو تنقید سے فرصت نہیں۔ (5) عقل کی تقدیر میں حضور نہیں۔ (6) عقل پرستوں کا مقام اعراف ہے یعنی وہ نہ اِدھر کے ہیں نہ اُدھر کے۔ (7) عقل چراغ راہ ہے چراغ منزل نہیں ہے۔ (8) عقل عشق کا کام جانتی ہی نہیں۔ (9) عقل تماشائی ہے۔ (10) عقل عیار ہے۔ (11) عقل امامت کی مستحق نہیں۔ (12) عقل ابولہب ہے۔
اب بھلا بتائیے غامدی صاحب اور خورشید ندیم چاہتے ہیں کہ مسلمان اپنی زندگی ایسی چیز کی رہنمائی میں بسر کریں جس پر اقبال نے ایک درجن الزامات لگائے ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ غامدی صاحب اور ان کے شاگرد رشید کے علم اور فہم کا کیا عالم ہے؟ لیکن خورشید ندیم صاحب پریشان نہ ہوں۔ اقبال نے ایک شعر میں عقل کی تعریف بھی کی ہے۔
انہوں نے فرمایا ہے۔
پیدا ہے فقط حلقہ اربابِ جنوں میں
وہ عقل کے پاجاتی ہے شعلے کو شرر سے
اقبال کہہ رہے ہیں کہ وہ عقل محمود یعنی پسندیدہ ہے جو اہل جنوں کے حلقے میں پیدا ہوتی ہے۔ اس عقل کی اہلیت یہ ہے کہ وہ شرر کو دیکھ کر شعلے کا فہم حاصل کرلیتی ہے۔ یعنی کمتر سے بہتر کو سمجھ لیتی ہے۔ اقبال کے اس شعر میں جنوں پر عشق بلکہ وحی کا سایہ ہے۔ مطلب یہ کہ اقبال کہہ رہے ہیں کہ جو عقل وحی کی بالادستی تسلیم کرتی ہے وہی اصل میں عقل ہے۔ اور اس عقل کا فہم غیر معمولی ہے۔ رہی غامدی صاحب اور خورشید ندیم صاحب کے مغرب کی عقل تو وہ مدتوں سے حلال و حرام کی بھی قائل نہیں بلکہ وہ آج کل مغرب کیا اہل مشرق کو بھی ہم جنس پرستی سکھارہی ہے اور تحریم کے رشتوں میں جنسی تعلقات قائم کرنے کا درس دے رہی ہے۔