قرضوں میں تشویشناک حد سے زیادہ اضافہ

231

اطلاع آئی ہے کہ ملک میں گردشی قرضوں کی مالیت 1330 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے ۔ اس میں سے 710 ارب روپے کا اضافہ عمران خان کی حکومت سنبھالنے کے بعد سے ہوا ہے ۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے آنے کے ساتھ ہی ملک کی معاشی حالت میں مزید ابتری آئی ہے ۔ نواز شریف اور زرداری حکومتوں پر الزام تھا کہ انہوں نے اندھا دھند قرضے لیے اور ملک کی معیشت کے استحکام کے لیے ٹھوس اقدامات سے گریز کیا جس کی وجہ سے ملک معاشی افراتفری کا شکار ہوچکا ہے ۔ اس امر کا اظہار خود عمران خان اقتدار میں آنے سے قبل اپنی تقریروں میں کیا کرتے تھے ۔ انہوں نے دعوی کیا تھا کہ برسراقتدار آتے ہی وہ گردشی قرضوں کا خاتمہ کردیں گے ۔ جب وہ یہ دعوی کررہے ہوتے تھے تو یقیناًان کے پاس اس کا کوئی لائحہ عمل بھی موجود ہوگا ۔ پاکستانی عوام زرداری اور نواز شریف کی معاشی پالیسیوں اور لوٹ مار سے تنگ تھے اسی لیے انہوں نے عمران خان پر یقین کرلیا۔ تاہم اب تک جو کچھ بھی سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر پہلے بدتر ہورہا تھا تو اب بدترین ہے ۔ عمران خان کو اقتدار میں آئے 150 دن ہوچکے ہیں ۔ اس عرصے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ گردشی قرضہ اگر ختم نہیں بھی ہوتا تو اس میں قابل قدر کمی نظر آنی چاہیے تھی مگر اس میں تو مزید 710 ارب روپے کا اضافہ ہوچکا ہے ۔ ملک میں معاشی صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ حکومت نے قرض حاصل کرنے کے ہر طریقے کا استعمال کرلیا ہے ۔ عرب ممالک، چین کے بعد آئی ایم ایف کا آخری آپشن بھی استعمال میں ہے ۔ اس کے بعد اب عوام سے بھی سکوک بانڈز کے ذریعے دو سو ارب روپے کا قرض حاصل کیا جارہا ہے ۔ اس کے باوجود ملک کی معاشی حالت بہتر ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں ۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جو بھی پارٹی پاکستان میں برسراقتدار آتی ہے ، اس کا سارا زور قرضے لینے پر ہوتا ہے ۔ قرضے لینے کی لت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2000 سے لے کر 2007 تک 8 برسوں میں بیرونی قرض 1.6 ارب ڈالر لیا گیا تھا لیکن اس کے بعد کے چار برسوں میں زرداری نے 19.6 ارب ڈالر کا بیرونی قرض لیا ۔ نواز شریف نے قرض لینے کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ۔ انہوں نے 42 ارب ڈالر کے قرض لیے ۔ جب نواز شریف کی حکومت رخصت ہوئی تو ملک پر 91.8 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے تھے جس میں سے تقریبا نصف نواز شریف کا کارنامہ تھے ۔ اب جس تیزی سے عمران خان قرض لے رہے ہیں ، ماہرین کا اندازہ ہے کہ بہت جلد ہی عمران خان نواز شریف کو بھی پیچھے چھوڑ جائیں گے ۔ ایک ایسا ملک جس کی اکثریت غربت کا شکار ہو اور دو وقت کی روٹی کے لیے ترستی ہو، اس ملک میں بڑھتے ہوئے قرضے کیا گل کھلائیں گے ، اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے ۔ قرض لینے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان نے اس قرض کی دگنی مالیت سے بھی زیادہ کے اثاثے گروی رکھوائے ہیں ۔ ایک ایسا ملک جو زندہ ہی قرضوں پر ہو وہ کیسے قرضوں کی ادائیگی کرسکتا ہے ؟ نادہندہ ہونے کی صورت میں کیا کچھ ہوسکتا ہے ، اس کے بارے میں سوچ کر ہی خوف آنے لگتا ہے ۔ نئی حکومت سے امیدیں تھیں کہ ان کے برسراقتدار آنے کے بعد سے پاکستان کے شب و روز میں تبدیلی آئے گی اور غریب عوام کے بھی لیل و نہار بدلیں گے مگر عملی طور جو صورتحال سامنے ہے وہ انتہائی مایوس کن ہے ۔ کرپشن میں کمی تو دور کی بات ہے ، اس میں اضافہ ہو رہاہے ۔ لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کے خواب بھی اب بکھرنے لگے ہیں ۔ وہی پرانا طریقہ کار اپنا لیا گیا ہے کہ ٹیکسوں میں اضافہ کردیا جائے اور بھوکی عوام کو مزید نچوڑا جائے ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک عام آدمی جو پہلے نان شبینہ کو محتاج ہے وہ کس طرح یہ 100 ارب ڈالر کے قرضے ادا کرے گا ۔ نہ تو یہ قرضے ان عوام نے لیے ہیں اور نہ ہی انہوں نے ملک کو لوٹا ہے ۔ تو پھر قرضے بھی یہ کیوں ادا کریں ۔ تحریک انصاف جس نعرے کو لے کر برسرا قتدار آئی ہے کہ ہم لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے ، کرپشن کا خاتمہ کریں گے اور کرپٹ لوگوں کو ، ملک کی دولت پاکستان سے باہر منتقل کرنے والوں کو لٹکائیں گے ، اس نعرے پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے ۔ بسنت منانے ، کرسمس کو سرکاری سطح پر منانے ، گستاخان رسول کو معافیاں دینے جیسے اقدامات کے بجائے کرپٹ لوگوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے ۔ روز ایک نیا قرض لینے کے بجائے ملک کو قرضوں کی دلدل سے نکالنے کا انتظام کیا جائے ۔