پاکستان کو مدینہ طرز کی ریاست بنانا ناممکن تو نہیں ؟ 

313

ہم میں سے اکثر لوگ کیا کررہے ہیں منافقانہ ماحول کو اپنا کر کہیں منافقوں میں تو شامل نہیں ہورہے؟ دماغ گھومنے لگتا ہے جب سیدھی سی باتوں پر بھی ہم بحث کے لیے تیار رہنا‘‘ درست سمجھیں۔ جب ایسا عام ہونے لگے تو پھر معاشرتی مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھنے لگتے ہیں۔ غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کسی بات پر متفق نہ ہوکر ہم افراتفری ہی تو پھیلارہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہورہا ہے کہ ہم مسلمان تو ہیں لیکن ہم اسلام کے معروف اصولوں بلکہ آپ ؐ کی سنت کے مطابق زندگی نہیں گزار رہے۔ ہمارا نظام بھی دین کے مطابق نہیں چلایا جارہا۔ مگر ہم دنیا میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باسی ہیں۔ ویسے تو اسلام مساوات کا درس دیتا ہے اور جمہوریت کی نفی کرتا ہے۔ لیکن چوں کہ ہم سب اور پاکستان الحمدللہ مسلمان اکثریتی ملک ہے شاید اسی لیے وقتی طور پر جمہوری نظام کو اپنا چکے ہیں۔ جب جمہوری نظام ایسے لوگوں پر مشتمل ہو جسے چلانے کے لیے قانون سازی اسمبلیاں ان لوگوں سے بھری پڑیں ہوں جو دین ہی سے ناواقف بلکہ جنہیں قرآن کی چھوٹی چھوٹی سورتیں بھی یاد نہیں ہوں تو وہاں پر اس سے زیادہ اور کیا مختلف صورتحال ہوگی جو ہمارے ملک کی ہے۔
اسلامی جمہوریہ ملک کی منتخب حکومت ووٹ حاصل کرنے کے لیے ملک کو مدینہ طرز کی ریاست بنانے کی بات کی مگر ساتھ ہی کسی ’’بااثر‘‘ کی تجویز پر آبادی میں کمی کرنے کے لیے ’’کم بچے خوشحال گھرانہ‘‘ کی غیر فطری اور غیر اسلامی تجویز کو مان کر اس پر عمل کرانے کے لیے سنجیدہ ہوگئی۔ پھر اسی جمہوری دور کے ایوان نے شراب پر ملک بھر میں پابندی عائد کرنے کے لیے قرار داد کی مخالفت کردی۔ حالاں کہ یہ قرار داد اسلامی اصولوں کے مطابق تھی لیکن اس کی ان ہی منتخب مسلمان اراکین نے مخالفت کردی جن کو اس کی فوری حمایت کرکے اسے نافذ کرنی چاہیے تھی۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ یہ قرار داد ملک کی اقلیتی برادری کے ہندو رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش نے پیش کی تھی مگر افسوس مسلمان اراکین نے مخالفت کردی۔ جس کی وجہ سے اس قرارداد کو پیش تک کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
اگر ہم بحیثیت قوم چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے الجھتے رہے تو پھر بڑے بڑے مسائل سے ہمیں کوئی نہیں بچا سکتا۔ اگر ہم مملکت کو درست سمت میں اسلامی مملکت بنائے بغیر دور حاضر اور دور قدیم کے مسائل سے نمٹنے کی باتیں کرتے رہیں تو اس کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہوگا۔ ہم کو طے کرنا پڑے گا کہ اسلامی مملکت میں ہمیں کون سا نظام حکومت چاہیے ہوگا جمہوری یا اسلامی؟ اسلامی نظام حکومت کے لیے اس کے تقاضے پورے کرنے ہوں گے۔ ممتاز اسلامی دانشور ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کہا کرتے تھے کہ ’’ہم ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جس میں اللہ کا قانون نافذ نہیں ہے، جس کا مالی نظام سود اور جوا پر ہے، ہم اس کو بدل نہیں سکتے کیا کریں کہاں جائیں، دنیا میں ایک انچ نہیں ہے کوئی ملک نہیں ہے جہاں اللہ تیرا نظام رائج ہے، ہم جس نظام کے تحت زندگی کمار رہے ہیں وہ کافرانہ ہے اور اللہ کے نظام کے فتوے کے تحت ہم کافر ہیں مگر اس کا کفارہ یہ ہے کہ ہم اس نظام کو ذہنی طور پر تسلیم ہی نہ کریں اس کی خدمت نہ کریں بلکہ اس کے خاتمے کے لیے جدوجہد کریں جس کے تحت اپنے اخراجات کم کیے جائیں اپنے زندگی کے کاروبار کو سکیڑیں تو یہ ہوگا اس کا کفارہ۔ کیوں کہ مغرب نے اسلامی نظام کے خلاف اپنی نظام کو جکڑا ہوا ہے۔ ڈاکٹر اسرار کے بیان کے برعکس ہم اور ہمارے معاملات چل رہے اور چلائے جارہے ہیں۔ دماغوں میں غلط باتوں کو بنالیا گیا ہے کہ سچی بات کے لیے گنجائش ہی نہیں رہی۔
وزیراعظم عمران خان نے ملک کو مدینے کی طرز کی ریاست بنانے کی نوید سنائی تو عام لوگ کیا عالم دین طارق جمیل بھی ان کی تعریفیں کرکے دانستہ یا نادانستہ ان کی حکمرانی اور حکومت کے حامی بن گئے۔ حالاں کہ شراب پر پابندی کے بل کو عمران خان کے وزیراطلاعات نے قومی اسمبلی میں آگے بڑھنے سے روکا۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ اگر وہ ملک کو واقعی اسلامی ریاست بنانے کی سچی نیت کی ہے تو اسے پورا کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ یاد رکھیں کہ ایسے اعمال کا بھی کوئی فائدہ نہیں جس کی نیت منفی ہو۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سود پر قرضہ لینے کے بجائے اسلامی ممالک سے بناء سود یا قرض لیا جائے۔ اگر صرف اسلامی نظام رائج کرنے کی نیت صاف ہے تو وزیراعظم کو ایسے عملی اقدامات کرنے ہوں گے جس سے اسلام دشمنوں کی نیندیں آڑ جائیں۔ اس کے لیے شراب سمیت اسلام میں ممنوع قرار دیا گئیں تمام اشیاء کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کی جائے۔ مدینے کی طرز کی ریاست بنانے والے عمران خان کے ساتھی کی اسلامی فوج کو غیر اسلامی قوتوں پر غالب کرنے کے لیے اسے مزید مضبوط کیا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب تک ہم مغرب کے تابع رہیں گے یا رہنا پسند کریں گے اس وقت تک ہم اللہ کا مکمل نظام پاکستان میں رائج نہیں کرسکیں گے۔ اگرچہ میری اس بات پر بعض لوگ ہنس بھی سکتے ہیں مگر سچ تو یہ بھی ہے کہ مسلسل کوششوں سے ہی مقاصد میں کامیابی حاصل ہوتی ہیں۔ کیا ہماری حکومت اپنی نیک نیتی کی تکمیل کے لیے درست قدم اٹھانے کی کوشش کرنے کے قابل بھی نہیں ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر یہ بات مان لینا چاہیے کہ ’’یہ سب وقت گزارنے کی باتیں ہیں‘‘۔