سیاسی نقشے کی ممکنہ صورت گری

238

سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف احتساب عدالت میں زیر سماعت دو اہم مقدمات العزیزیہ اور فلیگ شپ میں دو مختلف فیصلوں کے نتیجے میں ایک بار سات سال کے لیے جیل پہنچ گئے۔ فلیگ شپ کیس میں عدالت نے انہیں بری کیا تو العزیزیہ کیس میں سات سال قید بامشقت سنادی گئی۔ میاں نوازشریف کی سزا پر پاکستان کی سیاسی روایات کے عین مطابق ہمالیہ رویا نہ عوامی سطح پر کوئی بھونچال برپا ہوا۔ ’’قدم بڑھاؤ نوازشریف‘‘ کے نعرے بھی وقت اور حالات کی فضاؤں میں کہیں ڈوب کر رہ گئے کیوں کہ نوازشریف جب اڈیالہ اور کوٹ لکھپت جیلوں کی طرف قدم بڑھا رہے تھے تو وہ تنہا تھے ان کا ہجوم عاشقاں اور ہم سفر کارواں کہیں پیچھے ہی رہ گیا تھا۔ نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز نے ٹویٹ کے ذریعے ہی اس فیصلے کو ہدف تنقید بنا کر نوازشریف کو آخری فتح ملنے کے یقین کا اظہار بھی کیا۔ عدالت نے میاں نوازشریف کو جیل بھیجنے کے لیے بھرپور قانونی نکات اور جواز پیش کیے اب ان کے سقم نوازشریف کے وکیل اپیلوں میں تلاش کریں گے کہ یہ ایک طویل قانونی جنگ کا حصہ ہوگا۔ نوازشریف جیل کی طرف تیزی سے بڑھ رہے تھے تو ان کے برادر اصغر شہباز شریف کے لیے جیل کا پھاٹک اور روزنِ زنداں رفتہ رفتہ کھلتا جا رہا ہے۔ قومی اسمبلی کی پبلک اکاونٹس کمیٹی کی جو سربراہی ان کے لیے شجر ممنوع تھی اور حکومت اس نکتے پر کوئی سمجھوتا کرنے سے قطعی انکاری تھی وہ شہباز شریف کو مل چکی ہے اور اب شہباز شریف کا اسمبلی اجلاسوں میں آنا جانا معمول کا حصہ ہوگا۔ عہدوں اور مناصب کی وجہ سے ان کی قید آسان بھی ہو گی اور وہ آزاد دنیا اور ذرائع ابلاغ کے ساتھ رابطوں کی سہولت کے حامل بھی ہوں گے۔ ایک سیاست دان کو بات کہنے اور منظر پر رہنے کی جو سہولت درکار ہوتی ہے شہباز شریف کو وہ سب کچھ حاصل ہوگا۔ پارلیمنٹ کے اندر بھی انہیں اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومتی ’’پیٹی بند بھائیوں‘‘ کی حمایت اور ہمدردی کی سہولت بھی حاصل ہے جن میں اسپیکر اسد قیصر سر فہرست ہیں۔ اسد قیصر کے نزدیک ان کے منصب اور عہدے کا بنیادی تقاضا اور کردار ہی یہ ہے کہ ایوان کی کارروائی چلتی رہے۔ ایک پروفیشنل اسپیکر کو ایسا ہی ہونا بھی چاہیے اور اسی انداز سے سوچنا بھی چاہیے۔
چودھری نثار جو مریم نواز کے ٹویٹس اور پرویز رشید کے طعنوں اور نظر انداز کیے جانے کی وجہ سے مسلم لیگ ن میں کھسک کر شاید آخری سرحد بھی عبور کرچکے تھے اب خاموشی اور آہستہ روی کے ساتھ اس سرحد ی خلاف ورزی اور اپنی حد ود سے باہر نکل جانے کی تاویلات اور دلائل کے ساتھ کے اندر آرہے ہیں۔ شاید ان کا مطالبہ عالمِ غیب سے کچھ اس انداز سے پورا ہوگیا ہے کہ پارٹی کی سربراہی کسی ’’جونئر‘‘ اور ’’بچے‘‘ کے بجائے کہنہ مشق شہباز شریف کے ہاتھ میں آچکی ہے۔ ابھی تک یہ واضح ہونا باقی ہے کہ شہباز شریف کو سربراہی کے ساتھ فیصلہ سازی کا اختیار بھی انہیں ملا ہے یا نہیں۔ مسلم لیگ ن رفتہ رفتہ مسلم لیگ ش میں ڈھل سکتی ہے۔ مسلم لیگ ن میں کسی سیاسی مزاحمت اور احتجاجی تحریک کا دم خم باقی نہیں رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاست میں نظریاتی عنصر ختم ہوگیا ہے اور سیاسی کارکن کو مراعات اور تعیشات نے سہل پسند اور ابن الوقت بنا دیا ہے۔ جرنیل حکمرانوں نے معاشرے کو غیر سیاسی کرنے کا جو کام دانستہ کیا تھا سیاسی حکمرانوں نے نادانستگی میں اسے آگے بڑھایا۔ اس سے ایک غیر سیاسی کلچر وجود میں آیا جس میں ایک کارکن اپنے قائد کے لیے دن میں ایک سو ٹویٹس اور فیس بک اور واٹس ایپ پر اس کی دس تصویریں تو شیئر کر سکتا ہے مگر موبائل اور لیپ ٹاپ سے باہر کی دنیا سے نکل کر وہ قائد کے لیے ماریں اور لاٹھیاں نہیں کھا سکتا۔ اگر وہ ایسا کرے گا بھی تو یہ سوشل میڈیا کی ضرورت کے لیے ہوگا تاکہ قربانیوں کی فائل میں سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔
مسلم لیگ ن کی قیادت کے جیلوں میں جانے سے ملکی سیاسی منظر پر خلا اُبھرنے کا امکان اس لیے موجود نہیں کہ شہباز شریف رفتہ رفتہ منظر پر اُبھر رہے ہیں۔ اب وہ جیل جا کر بھی اپنی قیادت کا لوہا منوارہے ہیں۔ آصف زرداری نے خود کو پیپلزپارٹی کے نالاں اور ناراض کارکن سے منوانے کے لیے برسوں کی قید ہی کو خوبصورتی اور مہارت کے ساتھ استعمال کیا تھا۔ ان کا ڈی میرٹ جیل کی طویل زندگی ہی پارٹی میں ان کا میرٹ بن گئی تھی اور وہ بے نظیر بھٹو کے منصب کے حقدار بنے تھے۔ پارٹی کے سینئر اور سربرآوردہ سیاسی راہنما اس ایک میرٹ کے آگے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔ مسلم لیگ ن کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی کی قیادت بھی اپنے مشاغل، سرگرمیوں اور شوق کی دلدل میں دھنس رہی ہے۔ آصف زرداری نے بے نظیر بھٹو مرحومہ کو اپنی فکر وفلسفے کے آگے ہتھیار ڈالنے پر تو مجبور کیا تھا مگر وہ اپنی اگلی نسل بلاول کو بھی اچھا اور موافق ماحول نہ دے سکے اور اب آصف زرداری کی سوچ وفکر جواں سال بلاول کی راہ میں بچھے کانٹوں کی مانند ہو کر رہ گئی ہے۔ بلاول ابھی سیاست کے پہلے زینے پر تھے۔ وہ بدلتے منظروں کا حصہ بن کر ملک کو اچھی اور متبادل قیادت فراہم کر سکتے تھے۔ ابتدائے سفر میں ان کا نام اومنی گروپ کی سرگرمیوں کا حصہ نہ بنتا تو اچھا ہی ہوتا مگر آصف زرداری کی حکمت عملی نے بلاول کو نئے منظروں کا حصہ بننے کے بجائے ماضی کی بوجھل یادوں اور تاریخ کا حصہ بناڈالا۔
مسلم لیگ ن میں قیادت کا خلا پر کرنے کا انتظام شہباز شریف موجود ہیں وہ بہت سے حوالوں اور بہت سے مواقع کو خود کو ایک الگ اور آزاد ورثہ ثابت کر چکے ہیں اور چودھری نثار تو انہیں ایک الگ ورثہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس بلاول زرداری ورثے سے ہٹ کر اپنا امیج نہ بنا سکے اور آصف زرداری نے حکمت عملی کے تحت بھی اس کام میں دلچسپی نہ لی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی کو ممکنہ خلا پر کرنے کے لیے صنم بھٹو کی صورت میں بھولی بسری غیر سیاسی بھٹو وارث سے مدد طلب کرنا پڑ رہی ہے۔ صنم بھٹو خلا کو پر کرنے میں کامیاب ہو گئیں تو اچھا ناکام بھی ہوئیں تو بھی وقت کا دھار آگے اور آگے بہتا چلا جائے گا۔