سرکاری افسروں کی چوری ، تاوان صارفین سے

184

آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے سوئی ناردرن گیس پاکستان لمیٹڈ کو گیس چوری کے 65 ارب روپے کے نقصانات اپنے صارفین سے وصول کرنے کی اجازت دے دی ہے ۔ اوگرا نے نہ صرف گیس چوری کی مقرر حد کو 4.5 فیصد سے بڑھا کر 7.1 فیصد کرنے کی اجازت دے دی ہے بلکہ گزشتہ پانچ برسوں میں گیس چوری کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کو بھی صارفین سے وصول کرنے کی اجازت دی ہے ۔ ایسے فیصلے اندھیر نگری چوپٹ راج میں ہی ہوسکتے ہیں۔ سیدھی بات یہ ہے کہ گیس چوری کی روک تھام گیس کمپنی کی ذمہ داری ہے ۔ گیس کمپنی اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں اگر ناکام رہی ہے تو اس کی سزا اس کے ذمہ دار افسران کو دی جانی چاہیے نہ کہ وہ صارفین کو جو باقاعدگی سے اپنے بلوں کی ادائیگی کرتے ہیں ، وہی اس چوری کا بھی خمیازہ بھگتیں گے اور چوروں کی عیاشی کا تاوان بھی وہی ادا کریں گے ۔ یعنی جو قانون شکن ہے وہ مزے کرتا رہے ، گیس کمپنی کے جو افسران ان قانون شکن چوروں کے معاون تھے وہ بھی مزے کرتے رہیں اور جو قانون پسند صارفین تھے وہی سزا بھی بھگتیں گے ۔ اس کی مثال پاکستان کے علاوہ اور کسی ملک سے شاید ہی مل سکتی ہو۔ سرکار یہی اصول بجلی کی تقسیم میں بھی لاگو کرتی رہی ہے ۔ اوگرا کے صرف ایک رکن جو ممبر فنانس ہیں ، نے اس کے خلاف آواز بلند کی ہے اور اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ گیس کمپنی کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے اربوں روپے کے نقصانات میں صارفین کی کوئی غلطی نہیں۔ اس لیے صارفین سے اس کی وصولی بلاجواز ہے ۔ممبر فنانس نے اپنے اختلافی نوٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایس این جی پی ایل نے چوری کی حد میں اضافے کے لیے کوئی اضافی ثبوت اور منطق پیش نہیں کی ۔ سوئی ناردرن گیس کمپنی کے سابق سربراہ توقیر صادق کو گیس چوری کی حد ایک سال کے لیے بڑھانے پر نیب کی انکوائری کا سامنا ہے ۔اب حکومت پاکستان نے نہ صرف اس حد کو تقریباً دوگنا کردیا ہے بلکہ گزشتہ پانچ سال کی چوری کی رقوم بھی ان صارفین سے وصول کرنے کی اجازت دے دی ہے جو نہ تو چور ہیں اور نہ ہی نادہندہ ۔ ایسا زبردست فیصلہ کرکے آخر عمرانی حکومت چاہتی کیا ہے ؟ کیا کسی کو اندازہ ہے کہ اس سے قانون پر عمل کرنے والے شہریوں کو کیا پیغام دیا جارہا ہے ۔ یہ پیغام انتہائی واضح ہے کہ جو لوگ قانون پر عمل کرتے ہیں ، ٹیکس کی ادائیگی کرتے ہیں اور اپنے بل وقت پر ادا کرتے ہیں ، وہ احمق ہیں ۔ انہیں چاہیے کہ دیگر چوروں کی طرح گیس کمپنی کے متعلقہ افسران کا تعاون رشوت کے عوض حاصل کریں اور مزے کریں ۔ آڈیٹر جنرل پاکستان پہلے ہی اوگرا کی چیئر پرسن عظمیٰ عادل کی تقرری کو غیر قانونی قرار دے چکے ہیں کیوں کہ انہوں نے ایک گیس کمپنی کے حق میں فیصلے دیے ہیں جس کی وہ چیف فنانشیل آفیسر رہی ہیں ۔ اوگرا کا اپنا بورڈ بھی نامکمل ہے ۔ اس میں ممبر گیس کی اہم ترین اسامی خالی ہے جبکہ ممبر آئل دہری شہریت کے حامل ہیں اس لیے آڈیٹر جنرل نے ان کی تقرری بھی غیر قانونی قرار دی ہے ۔ اوگرا دو ہی بڑے فیصلے کرتی ہے یعنی گیس اور آئل کمپنیوں کے بارے میں فیصلے ۔ ان ہی دونوں شعبے سے متعلق ممبر اوگرا کے پاس قانونی طور پر موجود نہیں ہیں ، اس سے اوگرا کے فیصلوں کو سمجھا جاسکتا ہے ۔