یہ کیسے معاشی اہداف ہیں؟

161

حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت کے لیے معاشی اہداف طے کردیے ہیں ۔ ان اہداف کو دیکھا جائے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ ان اہداف سے ملک کو اور عوام کو کیا فوائد حاصل ہوں گے ۔ ملک کے لیے معاشی اہداف کا مطلب ہوتا ہے کہ پانچ سال میں ملک میں جی ڈی پی کتنی بڑھا دی جائے گی ، برآمدات کا ہدف کیا ہے ، افراط زپر کس طرح قابو پایا جائے گا ، زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کی کیا سبیل ہوگی ، توازن ادائیگی کو کس طرح بہتر بنایا جائے گا ، ملک میں توانائی کی فراہمی کی کیا صورتحال ہوگی ، صنعتوں کو کس طرح سے بہتر کیا جائے گا تاکہ ملک میں روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا ہوں ۔ افراد کے لیے معاشی اہداف کا مطلب ہے کہ عوام کو توانائی کس شرح پر دستیاب ہوگی ، ان کی تنخواہوں اور پنشنوں میں اضافے کی کیا شرح ہوگی ، روزگار کے نئے مواقع کس طرح سے پیدا کیے جائیں گے ، خود روزگار کے حصول کے لیے کون سی نئی اسکمییں متعارف کروائی جائیں گی وغیرہ وغیرہ ۔ حکومت نے جن معاشی اہداف کا اعلان کیا ہے ، اُس میں اس طرح کا کوئی ہدف شامل نہیں ہے ۔ ان اہداف میں ہے کہ کمرشیل بینکنگ کا کم از کم 30 فیصد اسلامی بینکنگ میں منتقل کردیا جائے گا یا پھر معیشت کو ڈیجیٹلائز کیا جائے گا ۔ ان اہداف میں بتایا گیا ہے کہ چھوٹے کسانوں کو سستے داموں بیج اور کھاد کی فراہمی کے لیے پورٹل بنایا جائے گا ۔ سلامی بینکنگ یا معیشت کو ڈیجیٹلائز کرنے سے کس طرح روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے ، افراط زر کس طرح سے قابو میں آئے گا، بجلی ، گیس و پٹرول کی بڑھتی قیمتیں کس طرح سے کم ہوں گی ، روپے کی بے قدری کو کس طرح سے روکا جاسکے گا ، توازن ادائیگی کا بگاڑ کس طرح سے درست ہوگا ، یہ سب حکومت میں شامل کوئی نابغہ روزگار ماہر معیشت ہی سمجھا سکتا ہے ۔یہ بات بھی کوئی سرکاری معیشت داں ہی سمجھا سکتا ہے کہ کون سا چھوٹا کسان پورٹل پر رجسٹرڈ ہوسکے گا ۔ کتنے کسان پڑھے لکھے ہیں اور کتنے فیصد کسان کمپیوٹر استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔چھوٹے کسان تو بہت دور کی بات ہیں اگر ارکان پارلیمنٹ ہی کمپیوٹر استعمال کرنے کی استعداد ثابت کردیں تو پھر آگے بڑھا جائے ۔ ان معاشی اہداف کا سب ہی کو شدت سے انتظار تھا ۔ اب ان کا اعلان ہوا تو اس سے مزید مایوسی ہی پھیلی ہے کہ حکومت کے پاس آئندہ پانچ برس بھی ملک کی معیشت کو سنبھالنے کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ موجود نہیں ہے ۔ لاکھوں گھروں کی تعمیر اور نوکریوں کی فراہمی کے نعرے ضرور بلند کیے گئے ہیں مگر ان خوابوں کی عملی تعبیر کی کوئی صورت نہیں ہے ۔