اور اب ای سی ایل

179

دیگر معاملات کی طرح ایگزٹ کنٹرول لسٹ بھی متنازع ہوتی جارہی ہے کسی کا نام ای سی میں ڈالا جاتا ہے وجہ نہیں بتائی جاتی، کسی کا نام چھوٹے سے بہانے پر ڈال دیا جاتا ہے اور کوئی بڑے سے بڑا جرم کر کے بھی اس سے محفوظ رہتا ہے۔ کسی کا نام انسانی ہمدردی کی بنیاد پر نکالا جاتا ہے اور کسی کو ملک سے نکل جانے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ تازہ واردات میں سابق صدر آصف علی زرداری، بلاول زرداری ، فریال تالپور، وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ سمیت 172 افراد کے ملک چھوڑنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ ان کے خلاف منی لانڈرنگ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد سے گھیرا تنگ ہو رہا ہے خدشہ ہے کہ وہ ملک سے فرار ہو جائیں گے۔ لیکن پاکستان میں پہلی بار تو ایسا نہیں ہو رہا۔ جب بھی ای سی ایل کا ذکر آئے گا جنرل پرویز مشرف کا بھی ذکر آئے گا۔ یہ سوال اٹھے گا کہ جس شخص کے خلاف ناقابل ضمانت وارنٹ تھے وزارت داخلہ نے اسے ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالے جانے کے حکم کے وقت عدالت کو آگاہ کیوں نہیں کیا۔ عدالت بھی اس حوالے سے کیا کہے گی کہ جس کے خلاف ناقابل ضمانت وارنٹ ہوں کیا وہ ملک سے جا سکتا ہے لیکن جنرل پرویز ٹہلتے ہوئے ملک سے چلے گئے۔ اور اب باہر بیٹھے روز بیان دیتے ہیں کہ ڈرتا ورتا کسی سے نہیں، جلد آرہا ہوں اور آتے بھی نہیں ۔ سابق صدر آصف زرداری ایک مرتبہ بیان میں اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کر کے دبئی چلے گئے لیکن آ بھی گئے۔ ایک ایسی پارٹی بھی ہے جسے ہمارے طاقت ور اداروں نے تخلیق کیا اس کا رہنما امریکا سے لایا گیا اور ڈھائی تین عشروں تک کراچی اور حیدرآباد میں قتل و غارت اور ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کر کے عملاً اینٹ سے اینٹ بجا کر لندن چلا گیا۔ کوئی ای سی ایل کوئی قانون اس کے لیے نہیں تھا۔ آج ہر وقت یہ ادارے خوفزدہ رہتے ہیں کہ اس کی کوئی نئی آڈیو نہ آجائے کوئی پیغام نہ آجائے۔ اب جن لوگوں کے نام ای سی ایل میں ڈالے گئے ہیں وہ بہرحال ہیں تو سیاسی شخصیات۔ ان کے فرار کا مطلب ان کی سیاست کا خاتمہ ہے لہٰذا یہ ملک سے طویل عرصہ غیر حاضر تو نہیں رہ سکتے۔ شرجیل انعام میمن کو پاکستان آنا پڑا۔ اب تو معافی بھی مانگی جاسکتی ہے۔ کچھ بھی کرلو معافی مانگو مصطفی کمال کی طرح پارٹی سنبھالو۔ عدالت اور فوج کو برا بھلا کہو ، وہاں جا کر غیر مشروط معافی مانگ لو۔ بات ختم اگر یہ لوگ بھی معافیاں مانگ لیں تو کیا ان کا نام ای سی ایل سے نکل جائے گا۔ خیر یہ تو برسبیل تذکرہ تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ ادھر 172 افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالے گئے ادھر چار سو سے زائد افراد کے قتل کے الزام میں مقدمات کا سامنا کرنے والے سابق ایس پی راؤ انوار نے اپنا نام ای سی ایل سے نکلوانے یک درخواست عدالت عظمیٰ میں داخل کی ہے۔راؤ انوار نے عدالت عظمیٰ کے روبرو یہ موقف اختیار کیا ہے کہ میں عمرے پر جانا چاہتا ہوں بچے جان کے خطرے کے پیش نظر پاکستان نہیں آسکتے ان کے حقوق ادا کرنا چاہتا ہوں ۔ راؤ انوار نے موقف اختیار کیا ہے کہ بے نظیر قتل کیس ، سانحہ 12مئی اور ایان علی کیس کے ملزمان کے نام ای سی ایل میں نہیں ڈالے گئے لہٰذا میرا نام بھی فہرست سے نکالا جائے۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ یہ عدالت کا امتحان ہے۔ یوں کہا جانا چاہیے کہ یہ عوام کا امتحان ہوگا ان کی آنکھوں کے سامنے کہیں ایک اور سانحہ نہ ہو جائے۔ جنرل پرویز کا تجربہ دہرانہ دیا جائے۔ یہ عدم توازن تو اب ہر دوسرے تیسرے معاملے میں خصوصاً سیاسی مقدمات میں دیکھنے میں آتا ہے کہ مخصوص لوگوں کے لیے جو قانون سختی سے استعمال ہو رہاہے وہی قانون دوسروں کے لیے نرم ہے۔ کسی کے لیے سلاخیں اور کسی کے لیے موم ہے۔ راؤ انوار کا موقف ہی ایسا ہے کہ اسے سننے کی بھی ضرورت نہیں۔ چار سو افراد کے قتل میں ملوث شخص اس طرح نکل جائے، اسے اب عمرہ یاد آرہا ہے۔ اپنے بچوں کے حقوق کی ادائیگی یاد آرہی ہے۔ جو چار سو افراد قتل ہوئے ان کے ماں باپ اور بچوں کے حقوق یاد نہیں آئے۔ سانحہ 12مئی ، بے نظیر قتل کیس اور ایان علی کیس میں ایک ہی فرد پر چار سوافراد کے قتل کا الزام نہیں تھا۔ یہ اعزاز صرف راؤ انوار کو حاصل ہے۔ راؤ انوار وی آئی پی ہیں اور سیاسی مقدمات والوں کو جیل میں کمرے دینے پر بھی جان جارہی ہے۔ یہ تضاد قوم تو دیکھ ہی رہی ہے عدالت عظمیٰ کے سامنے بھی ہوں گے۔