مقبوضہ کشمیر میں قتل عام اور پاکستان کی خاموشی

191

مقبوضہ کشمیر میں اِس وقت بھارت پر پاگل پن سوار ہے، وہ ہر روز کشمیری نوجوانوں کو قتل کررہا ہے، قابض بھارتی فوج کے سربراہ نے حکم دے دیا ہے کہ پتھراؤ کرنے والے مظاہرین پر براہِ راست گولی چلائی جائے اور ان کا قصہ تمام کردیا جائے۔ بھارتی فوج تو یہ کام کر ہی رہی ہے اس کے علاوہ بھی اس نے کشمیریوں کی نسل کشی کے کئی حربے اختیار کرلیے ہیں۔ ان میں سب سے اہم حربہ کسی بستی کا محاصرہ کرکے وہاں فوجی آپریشن کرنا اور نوجوانوں کو چن چن کر مارنا ہے۔ مسئلہ کشمیر اگرچہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے لیکن جن عالمی طاقتوں کے ہاتھوں میں اس کی نکیل ہے وہ فلسطین ہو یا کشمیر، عالم اسلام کا کوئی مسئلہ حل نہیں کرنا چاہتیں بلکہ ان کا ایجنڈا ہی یہ ہے کہ مسلمانوں کو مسائل میں اُلجھا کر رکھا جائے۔ اس لیے اقوام متحدہ مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورتِ حال کا ادراک کرتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ البتہ اس نے اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے سالِ رواں کے وسط میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی لرزہ خیز صورتِ حال کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس نے پوری دُنیا کو چونکا دیا ہے۔ اڑتالیس صفحات پر مشتمل اس رپورٹ کا آغاز حزب المجاہدین کے نوجوان کمانڈر برھان وانی کی شہادت سے ہوتا ہے اس شہادت کے بعد پورے مقبوضہ علاقے میں احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے، جن میں نہتے کشمیری نوجوان، بچوں اور بوڑھوں نے محض اپنے جذبات کے اظہار کے لیے حصہ لیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر بھارتی حکومت تحمل سے کام لیتی تو زیادہ ہلاکتیں نہ ہوتیں اور صورت حال اتنی خراب نہ ہوتی جتنی اب نظر آرہی ہے۔ رپورٹ میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے تحفظ کو عالمی ادارے کے لیے سب سے بڑا چیلنج قرار دیا گیا ہے کیوں کہ خود بھارتی حکومت نے مقبوضہ علاقے میں ایسے قوانین نافذ کر رکھے ہیں جن میں سیکورٹی فورسز کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر استثنا حاصل ہے اور مرکزی حکومت کی منظوری کے بغیر کسی فوجی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوسکتی اور اب تو بھارتی فوج کے سربراہ نے فوجیوں کو مظاہرین یا لوگوں کے پُرامن اجتماع پر براہ راست فائرنگ کی اجازت دے کر حالات کو مزید مخدوش بنادیا ہے۔ بھارت ابتدا ہی سے یہ پروپیگنڈا کررہا ہے کہ کشمیری تو بھارت کے ساتھ امن سے رہنا چاہتے ہیں یہ پاکستان ہے جو انہیں بغاوت پر اکساتا رہتا ہے اور کنٹرول لائن کے راستے درانداز بھیج کر علاقے میں دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے۔ بھارت نے کنٹرول لائن پر خار دار باڑھ لگا کر اپنے اس الزام کو خود ہی بے وقعت کردیا ہے جب کہ گزشتہ دو سال کے دوران کشمیریوں نے قابض بھارتی فوج کے خلاف شدید مزاحمت کرکے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ انہیں پاکستان سمیت کسی بھی ملک کی امداد حاصل نہیں اور وہ محض اپنے بل بوتے پر آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کشمیری نوجوان اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر میدان جنگ میں آپہنچے ہیں اور داد شجاعت دے رہے ہیں، اب پوری دنیا میں بھارتی پروپیگنڈا اپنا اثر کھو رہا ہے اور عالمی برادری مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کو اس کے صحیح تناظر میں دیکھ رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس وقت جب کہ مقبوضہ کشمیر میں بے گناہ عوام گاجر مولی کی طرح کاٹے جارہے ہیں اور بھارت نے سفاکی و درندگی کا ہولناک کھیل رچا رکھا ہے تو پاکستان اس وقت کہاں کھڑا ہے اور مقبوضہ علاقے میں قتل عام کو رکوانے اور بھارت کو ظلم سے باز رکھنے کے لیے کیا کررہا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ کشمیری عوام اپنی آزادی کی جنگ اپنے بل بوتے پر لڑ رہے ہیں، انہیں کوئی بیرونی مدد حاصل نہیں ہے، پاکستان یا آزاد کشمیر سے مجاہدین کی نقل و حرکت بھی اب ممکن نہیں رہی کیوں کہ بھارت نے کنٹرول لائن پر نگرانی کا نہایت موثر نظام قائم کر رکھا ہے۔ خود پاکستان بھی جہادی تنظیموں کی سرپرستی سے گریزاں ہے کہ عالمی تنظیمیں اسے مانیٹر کررہی ہیں اور اس کا نام گرے لسٹ میں شامل کر رکھا ہے۔ تو کیا ایسی صورت میں پاکستان کشمیریوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دے اور ان کا قتل عام روکنے کے لیے کچھ نہ کرے۔ اگر پاکستان کے ارباب اختیار ایسی کوئی روش اختیار کرتے ہیں تو بھارت سے جنگ آزما کشمیریوں تک نہایت غلط پیغام جائے گا، ان کے اندر مایوسی پیدا ہوگی اور تحریک آزادی کشمیر پر نہایت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ موقع بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگنے کا نہیں بلکہ اس پر عالمی دباؤ ڈالنے کا ہے۔ پاکستان کو سفارتی محاذ پر کشمیریوں کے حق میں نہایت جارحانہ پالیسی اپنانا ہوگی۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عمران حکومت ابھی تک مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورت حال کا احساس نہیں کرپائی ہے۔ وہ اس مسئلے پر ڈھیلے ڈھالے بیانات ضرور دے رہی ہے لیکن ابھی تک سفارتی محاذ پر کوئی عملی قدم نہیں اٹھا پائی ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ حکومت ابھی تک پارلیمانی کشمیر کمیٹی بھی نہیں قائم کرپائی جب کہ دوسری پارلیمانی کمیٹیوں نے کام بھی شروع کردیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پچھلی کشمیر کمیٹی ایک شخصیت کی سربراہی میں دس سال تک رہی لیکن اس نے دھیلے کا کام نہیں کیا، جب کہ کشمیر کمیٹی کے سربراہ کو وفاقی وزیر کا درجہ حاصل تھا اور کمیٹی کو ہر سال سترہ کروڑ روپے کا آڈٹ فری بجٹ ملتا تھا۔ کشمیر کمیٹی پوری دنیا میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے بہت کچھ کرسکتی تھی لیکن اس نے پورا ایک عشرہ خاموشی سے گزار دیا۔ اب مقبوضہ کشمیر کے عوام بھارت کی ہولناک ریاستی دہشت گردی کی زد میں ہیں، ان کا قتل عام ہورہا ہے لیکن پاکستان میں عمران حکومت ابھی تک پارلیمانی کشمیر کمیٹی ہی نہیں بنا پائی حالاں کہ اس کمیٹی کی جتنی ضرورت آج ہے اتنی پہلے کبھی نہ تھی۔ کشمیر کمیٹی دفتر خارجہ کے توسط سے پوری دنیا میں پاکستانی سفارت خانوں کو متحرک کرسکتی ہے۔ دنیا کے اہم دارالحکومتوں میں مقیم کشمیری باشندوں کے ذریعے احتجاجی مظاہرے کرواسکتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی ہفتہ وار رپورٹ جاری کرکے اسے پوری دنیا میں پھیلا سکتی ہے اور عالمی رائے عامہ کو بھارتی مظالم کے خلاف ہموار کرسکتی ہے اس وقت اہم ضرورت یہ ہے کہ بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں قتل عام سے روکا جائے۔ ارباب اختیار کو سوچنا ہوگا کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورت حال میں کہاں کھڑا ہے اور بھارت کے خلاف سفارتی جنگ میں کیوں اتنا بے حس ہوگیا ہے۔