اس وقت صورت حال یہ ہے کہ محاصل، خزانہ، مالیات اور مرکزی بینک سے متعلقہ اعلیٰ عہدیدار آئی ایم ایف کے ساتھ مختلف سطحوں پر مذاکرات میں مصروف ہیں اور حکومت کی جانب سے معاشی بہتری کے لیے اُٹھائے جانے والے اقدامات سے فنڈ کو مطمئن کرنے میں ہر طرح کی کوششیں کررہے ہیں کہ شرح سود میں اضافے اور پاکستانی روپے کی قدر کم کیے جانے والے اقدامات سے آئی ایم ایف مزید مطالبات پر شرائط سے دستبردار ہوجائے لیکن بظاہر اس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ خصوصاً ایک ایسے وقت میں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ پاکستانی حکومت کے معاملات خوشگوار نہیں۔
آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج کے حصول کی بازگشت تحریک انصاف کی حکومت آنے کے کچھ عرصے بعد سنائی دینے لگی تھی۔ اس وقت صورت حال یہ تھی کہ حکومتی ایوانوں سے ایک دن آئی ایم ایف سے رابطہ کی بات کی جاتی دوسرے دن اسد عمر یہ کہتے سنائی دیتے کہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط تسلیم نہیں کی جائیں گی۔ اسی کے ساتھ ساتھ متبادل ذرائع سے بھی امریکی ڈالر کے ذخائر کو بہتر کرنے کی کوششیں جاری رہیں۔ چناں چہ وزیراعظم عمران خان نے اسی مقصد کے لیے سعودی حکومت، متحدہ عرب امارات اور چین کے دورے بھی کیے اور پاکستان میں ڈالروں کی آمد کی خوشخبریاں بھی عوام کو سنائی جاتی رہیں اور یہ حقیقت بھی ہے۔ سعودی عرب اور امارات نے کئی ارب ڈالر پاکستان کو منتقل کردیے ہیں اور سعودی عرب نے آئل کے درآمدی بل کی تاخیر سے وصولی کے لیے حامی بھرلی ہے۔ اس سے پاکستان کو 6 ارب ڈالر کی سہولت حاصل ہوگی۔ متحدہ عرب امارات سے بھی 3 ارب ڈالر کی آمد متوقع ہے جس کا ایک حصہ پاکستان کو مل چکا ہے۔ مزید یہ کہ چین کی جانب سے بھی پاکستان کو کسی نہ کسی مشکل میں فارن ایکسچینج زیزروسے سہارا ملنے کی توقع ہے۔ اس سے اندازہ یہ ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام تک پاکستان کے لیے دس سے بارہ ارب ڈالر کا انتظام ہوجائے گا اور یہ رقم پاکستان کو آئی ایم ایف سے ملنے والے بیل آؤٹ پیکیج کی رقم جو قسطوں میں پانچ سال میں ملے گی سے زیادہ ہے۔
اصل میں آئی ایم ایف سے اصل مسئلہ رقم کا حصول نہیں ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ پاکستان میں بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی کے باعث کئی عالمی کریڈیٹ ریٹنگ ایجنسیوں سے پاکستان کی ریٹنگ کم کردی ہے۔ اس کے باعث غیر ملکی مالیاتی ادارے مثلاً عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک وغیرہ نے اپنی امداد پاکستان کو روک دی ہے، اگر پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام میں شامل ہوجاتا ہے تو یہ امر اس بات کا مظہر ہوگا کہ پاکستان معاشی استحکام کی طرف جارہا ہے اور اس کے بعد دیگر غیر ملکی مالیاتی ادارے پاکستان کو قرض اور امداد فراہم کرنا شروع کریں گے۔ چناں چہ یہ پاکستان کی مجبوری ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں شریک ہو۔ اسی لیے پاکستان نے 7 نومبر کے باقاعدہ بیل آؤٹ پیکیج کے لیے مذاکرات شروع کیے اور یہ مذاکرات دوبارہ ہونے کے باوجود آخری مرحلے تک نہیں پہنچے ہیں، وجہ اس کی آئی ایم ایف کی جانب سے سخت شرائط ہیں جو اس نے پاکستان کے سامنے رکھی ہیں۔ مثلاً ایکسچینج ریٹ کے لیے شرط یہ ہے کہ ڈالر میں روپے کی قیمت کو آزاد چھوڑ دیا ہے اور روپے کی قدر طلب و رسد کی قوتوں کی بنیاد پر طے ہونے دیا جائے۔ پاکستان کا موقف یہ ہے کہ پاکستان کی کرنسی مارکیٹ بہت چھوٹی ہے، کرنسی مارکیٹ کے بڑے کھلاڑی ڈالر کی رسد میں قلت پیدا کرکے ڈالر کے ریٹ بلند شرح پر لے جاسکتے ہیں۔ دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ مالیاتی خسارہ (Fiscal deficit) کو کم کرنے کے لیے محاصل کا ٹارگٹ بڑھا کر 4454 ارب روپے سے 4700 ارب روپے کیا جائے اور دوسری طرف پیداواری یا دفاعی اخراجات میں 1.5 سے لے کر 2.5 فی صد تک کمی کی جائے۔ اس سلسلے میں بجلی کے نرخوں میں اضافہ اور تیل کی مصنوعات میں ٹیکس کو بڑھا کر مزید ریونیو وصول کیا جائے۔ تیسرا مطالبہ یہ ہے کہ شرح سود جو گزشتہ 4 ماہ میں 4.5 فی صد بلند ہوگئی ہے اس میں مزید اضافہ کرکے 13 فی صد تک لایا جائے۔پاکستانی حکومت نے اخراجات میں کمی کے مطالبے کو تسلیم کرلیا ہے مگر دیگر شرائط پر گفتگو جاری ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی ایک ایک شرط عوام کی کمر پر ایک تازیانے سے کم نہیں۔ ویسے ہی تجاوزات کے خاتمے کی آڑ میں لاکھوں لوگوں کا روزگار ختم ہوگیا ہے۔ ٹیکسوں میں اضافے سے مہنگائی 3.5 فی صد سے 7.2 فی صد تک پہنچ گئی ہے، دیکھتے ہیں عوام کب تک یہ صورت حال برداشت کرتے ہیں۔