عرصہ ہوا کتاب زندگی سے فراغت اپنے ہرہر مفہوم میں خارج ہے۔ بہار، ابر بہار مصروفیت کی دھوپ میں سب گلاب سب پھول مرجھائے مرجھائے سوکھے سوکھے۔ وہ مقاصد زندگی لگتا تھا جو محشر میں بھی چین سے نہ بیٹھنے دیں گے اب بھی ہر روز نیند سے کچھ پہلے آموجود ہوتے ہیں۔ دماغ چوتھے آسمان پر پہنچ جاتا ہے۔ لیکن صبح رزق کی تلاش پھر سڑکوں پر لے آتی ہے۔ حالاں کہ جن افراد خانہ کے لیے یہ تگ و دو ہے ان کی حقیقت معلوم۔ قبر پر ’’دھی پوت جنوائی بیٹا کیا بنجارن پاس نہ آئے گی‘‘۔
سردی کی ابتدا ہمیں بیمار ڈال دیتی ہے۔ بیماری کے باعث ہی سہی فراغت میسر ہو تو ہمارے نزدیک اس کا ایک ہی استعمال ہے۔ بزم اقبالؔ ۔ اقبال کی ایک فارسی نظم انقلاب کے دوران اہل ایران کے لیے بہت اہم تھی۔ وہ خیال میں کوندے کی طرح لپک گئی۔
ترجمہ: ایک تنگ و تاریک کمرے کی تنہائی میں مجھ پر سیاست کی ایک رمز آشکار ہوئی جب اونٹ کی آنکھیں اور منہ باندھ دیے جاتے ہیں اور اس کی گردن پر ایک وزنی پٹا ڈال دیا جاتا ہے تو پھر اونٹ اپنے ہی گرد گھومنے لگتا ہے۔ لیکن سمجھتا ہے کہ وہ دیگر اونٹوں کے ساتھ ایک نیا راستہ طے کررہا ہے۔ اسی طرح جب قوم کی آنکھیں بند کردی جاتی ہیں تو وہ ایک مقام پر آکر کھڑی ہوجاتی ہے۔ اسے یقین ہوتا ہے کہ وہ آگے جارہی ہے راستہ طے کررہی ہے لیکن اسے خبر ہی نہیں ہوتی کہ وہ ایک ہی مقام پر کھڑی اپنے ہی گرد گھوم رہی ہے۔
جمہوریت ہو یا آمریت ہم ایک ہی نظام، ایک ہی مقام پر کھڑے جھومتے رہتے ہیں۔ سرمایہ داریت کا نظام۔ جمہوریت ہو تو ہمیں باور کرایا جاتا ہے کہ یہ سیاستدان ہیں متذبذب، نااہل اور غیر سنجیدہ جو قوم کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسے غلط راہ پر چلا رہے ہیں اور آمریت ہو تو جنرلوں کو آنکھوں کی پٹی قرار دیا جاتا ہے۔ یوں جمہوریت ہو یا آمریت اچھی حکومت خواب ہی رہتی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو وہ ہے۔ جو غالب نے بیان کی ہے۔
رہا آباد عالم اہل ہمت کے نہ ہونے سے
بھرے ہیں جس قدر جام و سبو میخانہ خالی ہے
حکو متیں آرہی ہیں جارہی ہیں لیکن بھوک عوام کے گھروں سے نکلنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ جام و سبو بھرے ہیں مگر میخانہ خالی ہے۔ غالب کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ اہل ہمت کا نہ ہونا ہے۔ اہل ہمت ہوں بھی تو اس نظام کے داخلی تضادات کسی بھی حکومت کو دل جمعی سے اپنے منصوبوں کو بروئے کار نہیں لانے دیتے۔
عالمی سطح پر یہ بحث شدت اختیار کرتی جارہی ہے کہ اس پیچیدہ اور تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں حکمرانی کے چیلنج پر کیسے پورا اترا جائے۔ اچھی حکمرانی یا گڈ گورننس عمومی بات نہیں رہی ہے بلکہ مربوط عوامل کا نتیجہ ہے جس کے لیے ایک درست حکمت عملی اور نئے نظام کی ضرورت ہے۔ سوشل ازم، سرمایہ داریت اور اس سے وابستہ جمہوریت انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ مغرب میں فلاحی ریاست اور جمہوری آزادی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے جیسا عمل سمجھی جارہی ہے۔ اشیاء صرف سے لے کر تعلیم، صحت اور دیگر شعبوں میں حکومتیں عوام سے رعایتیں واپس لے رہی ہیں۔ چھ ہفتے سے زائد ہونے کو آرہے ہیں فرانس میں احتجاج جاری ہے۔ پیلی جیکٹ احتجاج کا استعارہ بن گئی ہے 2008 کے بعد سے پیلی جیکٹ تمام کمرشل گاڑیاں چلانے والوں کے لیے لازمی قرار دی گئی تھی۔ فرانس میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، مصارف زندگی کے بڑھتے اخراجات اور حکومتی ٹیکس اصلاحات جیسے مسائل کانا پسندیدہ بوجھ محنت کشوں اور درمیانے طبقے کے لیے ناقابل برداشت ہوگیا ہے۔ ڈیزل فرانس میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ایندھن ہے۔ گزشتہ ایک برس میں فرانس میں ڈیزل کی قیمتوں میں تقریباً 23فی صد اضافہ ہوا ہے۔ یہ تحریک فرانس کے شہروں میں زیادہ پر تشدد ہے حالاں کہ مسائل کے ناپسندیدہ بوجھ سے دیہی اور نیم شہری علاقے زیادہ متاثر ہیں۔ لاکھوں عوام احتجاج کررہے ہیں لیکن تاحال حکومت عوام پر اضافی بوجھ ہٹانے پر تیار نہیں۔ کرسمس کی تعطیلات میں پیرس بدترین تشدد کی زد میں رہا۔ مہنگائی کے خلاف یہ احتجاج صرف فرانس تک محدود نہیں ہے بتدریج اٹلی، بیلجیم اور نیدر لینڈ تک وسیع ہوتا جارہا ہے۔ جمہوریت کی تعریف عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے اس پر فریب نعرے کی حقیقت آج سب پر ظاہر ہے۔ بتدریج جمہوریت کے نعروں اور دعووں سے انحراف ہی میں حکومتیں ریاست کی بقاء محسوس کررہی ہیں۔ انسان کی آئندہ سرنوشت میں یہ انداز حکمرانی اور نظام دنیا بھرمیں عوام سے ٹکراؤ اور تصادم کی حالت میں ہے اور انسانیت پر ایک تباہ کن ضرب لگانے کے سوا کوئی کردار ادا کرتا نظر نہیں آرہا۔ اگلی دہائی کا سب سے بڑا چیلنج حکومتوں کو ٹھیک کرنا ہے۔
پاکستان میں الیکشن کے بعد قائم عمران خان کی حکومت کے پاس ملک کی دگرگوں معاشی حالت اور اقتصادی مسائل کا حل مہنگائی میں روز افزوں اضافے اور غریبوں پر ناروا بوجھ ڈالنے کے سوا کچھ نہیں۔ اس حکومت نے آتے ہی بجلی، گیس اور اشیاء صرف کی قیمتوں میں تباہ کن اضافہ کیا۔ روپے کی بے قدری اور شرح سود میں اضافے کے بعد مہنگائی کے زلزلے اس کے بعد آفٹر شاکس الگ ہیں۔ اس پر بھی بس نہیں اگلے ماہ ایک اور منی بجٹ کی تیاری کی جارہی ہے۔ جس سے غریبوں پر کیا قیامت گزرے گی دنیا بھر کی دیگر جمہوری حکومتوں کی طرح یہ عمران خان کی حکومت کا بھی درد سر نہیں ہے۔ اس نظام میں حکومتوں کو روز مرہ کی بنیاد پر چیلنجوں کا سامنا رہتا ہے لیکن کسی چیلنج کا تعلق عوام پر ناروا بوجھ کے خاتمے اور ان کے مسائل کے حل سے نہیں ہوتا۔ ہر حکومت کے خاتمے کے بعد حکمران اور بالائی طبقات ترقی کے برتر جب کہ غریب عوام پستی کے بدتر مقام پر نظرآتے ہیں جس کا سہارا لے کر یا جسے جواز بنا کر نئے مداری عوام کو نئے خوش کن خواب دکھاکر ووٹ حاصل کرتے ہیں۔ اقتدار میں آتے ہیں لیکن جلد ہی واضح ہوجاتا ہے کہ اس نظام میں عوام کے معیار زندگی کو بہتر کرنے کے حوالے سے ان کے لیے بھی کچھ کرنے کی گنجائش موجود نہیں ہے۔