چارلی چپلن کی مزاحیہ اداکاری کا کمال یہ ہے کہ وہ کچھ نہ بھی کررہا ہو تو محض اسے دیکھ کر آدمی کو ہنسی آجاتی ہے۔ پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانش وروں کا معاملہ بھی یہی ہے۔ سنجیدہ لوگ محض ان کا نام سن کر بھی مسکرانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جن کا ’’نام‘‘ سن کر بھی مسکراہٹ لبوں پر آجاتی ہے ان کا ’’کام‘‘ دیکھ کر انسان کا کیا حال ہوتا ہوگا؟۔
طاہر کامران پاکستان کے ایک سیکولر دانش ور ہیں۔ ان کے کالم دی نیوز کراچی میں تواتر کے ساتھ شائع ہوتے رہتے ہیں۔ طاہر کامران صاحب کے کالم کیا ہیں مسکراہٹوں بلکہ قہقہوں کا خزانہ ہیں۔ حال ہی میں ان کا ایک قہقہہ بار کالم شائع ہوا ہے۔ کالم کا عنوان ہے۔
Conversation and Critical Thinking یعنی مکالمہ اور تنقیدی فکر۔ آپ کہیں گے یہ تو ایک فلسفیانہ قسم کا عنوان ہے۔ آپ کا خیال غلط نہیں مگر آپ چہرے کو نہ دیکھیں باطن کو دیکھیں۔ کالم کی روح کو ملاحظہ فرمائیں۔ مگر کالم کا باطن کیا کالم کی روح کیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں۔ طاہر کامران نے لکھا ہے۔
’’مکالمہ سماجی اعتبار سے مساوی الحیثیت لوگوں کے درمیان ہوتا ہے۔ اس عمل میں ایک شخص کلام کرتا ہے اور سامع کا کردار ادا کرتا ہے۔ پھر سامع کلام کرنے والا بن جاتا ہے اور دوسرا اس کی گفتگو سماعت کرتا ہے۔ اس عمل کے ذریعے ’’تنقیدی فکر‘‘ پیدا ہوتی ہے۔ یہاں اس بات کی نشاندہی غلط نہ ہوگی کہ تنقیدی فکر معاشرے میں پہلے سے موجود صداقت یا Establish Truth کا جائزہ لیتی ہے یا اسے چیلنج کرتی ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں ہو یہ رہا ہے کہ ایک بات کرتا ہے اور باقی دوسرے صرف اس کی بات سنتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب کوئی پیر اپنے مریدوں سے بات کرتا ہے تو اسے مکالمہ نہیں کہا جاسکتا۔ مولوی جب مسجد میں خطبہ دیتا ہے یا کسی گاؤں میں کوئی بزرگ لوگوں سے بات کرتا ہے تو اس کی گفتگو مکالمے کی روح کے منافی ہوتی ہے۔ یہ لوگ ایک طاقت ور مقام سے کلام کرتے ہیں۔ چناں چہ ان کی گفتگو تنقیدی فکر پیدا نہیں کرپاتی اور نہ ہی یہ گفتگو کسی میں یہ صلاحیت پیدا کرتی ہے کہ وہ کسی موضوع پر تنقیدی تجزیہ پیش کرسکے۔ ایسے معاشروں میں Idea اور خیالات ایک دائرے میں گردش کرتے رہتے ہیں۔ چناں چہ ایسے معاشرے کے لوگوں کی ذہنی نشوونما رک جاتی ہے‘‘۔ (دی نیوز۔ 16 ستمبر 2018)
ہم نے طاہر کامران کا یہ کالم پڑھا تو ہم ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگئے۔ طاہر کامران کا یہ خیال درست ہے کہ مکالمہ سماجی اعتبار سے مساوی الحیثیت لوگوں کے درمیان ہوتا ہے۔ مگر طاہر کامران اس سلسلے میں ’’مساوی حیثیت‘‘ کو صرف ’’لوگوں‘‘ تک کیوں محدود کرتے ہیں، وہ بات کو پھیلاتے کیوں نہیں اور یہ کیوں نہیں کہتے کہ افراد ہوں یا گروہ، طبقات ہوں یا اقوام مکالمے کے لیے مساوی ہونا ضروری ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کے ہر معاشرے میں سماجی اور معاشی اعتبار سے بڑے امتیازات ہیں۔ ہر معاشرے میں ایک بالائی طبقہ ہے۔ ایک متوسط طبقہ ہے۔ ایک زیریں طبقہ اور ان طبقات کے درمیان نہ مکالمہ ہورہا ہے اور نہ مکالمہ ہونے کا کوئی امکان ہے۔ یہی قصہ اقوام کا ہے۔ دنیا میں کچھ ترقی یافتہ اقوام ہیں، کچھ ترقی پزیر اقوام ہیں اور کچھ پسماندہ اقوام ہیں۔ چناں چہ ان اقوام کے درمیان بھی نہ مکالمہ ہورہا ہے نہ مکالمے کے وقوع پزیر ہونے کا کوئی امکان ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مکالمے کے نہ ہونے کا بنیادی طور پر ’’مذہبی معاشرے‘‘ سے کوئی تعلق نہیں۔ جہاں تک پیر اور مریدوں کا یا مولوی اور ملّا کا تعلق ہے تو ان چیزوں کا بھی ’’بیچارے مذہب‘‘ سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم نے زندگی میں سیکڑوں سیکولر، لبرل اور سوشلسٹ پیر اور سیکڑوں سیکولر، لبرل اور سوشلسٹ مرید دیکھے ہیں۔ اسی طرح ہم درجنوں سیکولر، لبرل اور سوشلسٹ ملاؤں اور مولویوں سے آگاہ ہیں۔ بدقسمتی سے جس طرح مذہبی پیر مریدوں کو اور مذہبی مولوی اور ملّا اپنے سامعین کو کلام نہیں کرنے دیتے اسی طرح سیکولر اور لبرل پیر اور سیکولر، لبرل اور سوشلسٹ مولوی اور ملّا بھی اپنے سامعین کو کلام کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو نہ مذہبی دائرے میں کہیں مکالمہ ہورہا ہے نہ سیکولر، لبرل یا سوشلسٹ دائرے میں کہیں مکالمہ برپا ہے۔ جدھر نظر جاتی ہے خود کلامی کا منظر ہے۔ چناں چہ یہ ایک مزاحیہ بات ہے کہ اہل مذہب کو مکالمے کا دشمن باور کرایا جائے اور سیکولر، لبرل اور سوشلسٹ لوگوں کو مکالمے کا عاشق ثابت کیا جائے۔ ہم نے اتفاق سے جدید مدرسوں یعنی اسکول، کالج اور یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے اور ہمارا تجربہ یہ ہے کہ نہ اسکول کا استاد تنقید کو پسند کرتا ہے، نہ کالج کا استاد تنقید کو سراہتا ہے۔ نہ یونیورسٹی کا استاد تنقید کو پسند کرتا ہے۔ چناں چہ ہماری پوری تعلیمی زندگی اساتذہ سے لڑتے جھگڑتے گزر گئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ مدرسے، مسجد، اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں مکالمے کے حوالے سے کوئی فرق نہیں۔ جس طرح ہوٹلوں اور چائے خانوں میں لکھا ہوتا ہے سیاسی گفتگو ممنوع ہے اسی طرح اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے دروازوں پر بھی لکھے لکھا ہوتا ہے ’’یہاں مکالمہ ممنوع ہے‘‘۔
یہ مسئلہ صرف اسکول، کالج اور یونیورسٹی تک محدود نہیں۔ ہم نے ایک زمانے میں کوشش کی کہ پاکستان کے انگریزی اخبارات میں مذہبی نقطہ نظر کے حامل مضامین شائع کرائے جائیں۔ ہم نے اس سلسلے میں کئی عمدہ انگریزی لکھنے والے تلاش کیے۔ ان لوگوں کی فکری سطح بھی بلند تھی مگر کئی کوششوں کے باوجود ہم ان کے مضامین انگریزی اخبارات میں شائع نہ کراسکے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انگریزی صحافت پر سیکولر لبرل اور سوشلسٹ عناصر کا غلبہ و قبضہ ہے اور وہ انگریزی اخبارات میں مذہبی موقف کی دوچار جھلکیاں بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ اس سے بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ سیکولر اور لبرل افراد مکالمے کے کتنے شوقین ہیں اور انہیں تنقیدی فکر کے فروغ سے کتنی دلچسپی ہے؟۔
یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ سوشلزم 70 سال تک آدھی دنیا پر راج کرنے کے بعد صفحہ ہستی سے مٹ گیا اور اس کا قبلہ و کعبہ سوویت یونین فنا ہو کر رہ گیا۔ جب تک یہ ’’سانحہ‘‘ نہیں ہوا دنیا کے کسی سوشلسٹ کو سوشلزم یا سوویت یونین کے نظام میں کوئی خرابی نظر نہ آئی۔ ان کے لیے مارکس ایک پیغمبر کی طرح تنقید سے بالاتر تھا اور اس کی فکرپہ تنقید کو پوری سوشلسٹ دنیا میں ’’کفر‘‘ تصور کیا جاتا تھا۔ یہی قصہ سیکولر اور لبرل مغرب کا ہے۔ سیکولر اور لبرل مغرب کے کئی بنیادی عقاید ہیں۔ سیکولر اور لبرل مغرب کا ایک عقیدہ ’’آزادی‘‘ ہے۔ ایک عقیدہ ’’جمہوریت‘‘ ہے۔ ایک عقیدہ ’’آزاد منڈی کی معیشت‘‘ کا ہے۔ مغرب میں ان عقاید کے حوالے سے نہ کوئی ’’تنقیدی فکر‘‘ موجود تھی، نہ ہے اور نہ اس کے ظاہر ہونے کا کوئی امکان ہے۔ مغرب ان عقاید کو ’’دائمی‘‘ بھی سمجھتا ہے اور ’’آفاقی‘‘ بھی۔ چناں چہ وہ ان عقاید پر نہ تنقید برداشت کرتا ہے اور نہ ان عقاید کے ’’متبادل‘‘ کو اُبھرنے دیتا ہے۔ سوشلزم سے جدید مغرب کو اصل چڑ ہی یہ تھی کہ وہ سرمایہ داری کا متبادل ہونے کا تاثر دیتا تھا۔ اسلام سے مغرب کو نفرت ہے تو اس لیے کہ اس کے پاس بھی کچھ ’’دائمی‘‘ اور ’’آفاقی‘‘ عقاید ہیں اور وہ زندگی کے ہر دائرے میں مغرب کا متبادل مہیا کرسکتا ہے۔ طاہر کامران کے مکالمے اور تنقیدی فکر کے عشق کے حوالے سے دیکھا جائے تو مغرب کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مسلم دنیا مغرب کے عقاید کو تنقیدی فکر بروئے کار لاتے ہوئے مسترد کرچکی ہے اور مسلم دنیا کی اجتماعی عقل کہہ رہی ہے کہ اسلامی نظام سے بہتر کوئی نظام نہیں۔ چناں چہ عالم اسلام کو وہ کرنے کی آزادی دی جائے جو اسے پسند ہے مگر جو کچھ ہورہا ہے وہ یہ ہے کہ مغرب نہ مسلم دنیا سے مکالمہ کررہا ہے نہ اسے اپنے حوالے سے ’’تنقیدی فکر‘‘ کو پروان چڑھانے دے رہا ہے۔ ذرا کوئی مسلم دانش ور یا بڑا سیاسی رہنما کہہ کر تو دیکھیے کہ وہ مغرب کے تصورِ آزادی، تصور جمہوریت اور آزاد منڈی کی معیشت کے تصور کو نہیں مانتا؟۔ اس کا بیان جاری ہوتے ہی مغرب اور اس کے مقامی آلہ کار اسے وحشی، درندہ، ترقی کا دشمن، طالبان، یا القاعدہ کا ایجنٹ قرار دے دے گا۔
ایلوِن ٹوفلر مغرب کے ممتاز دانش وروں اور ماہرین عمرانیات میں سے ہیں۔ ان کی تصنیف Future Shock کروڑوں کی تعداد میں شائع ہوئی۔ ان کی دو دوسری کتابیں Third Wave اور Power Shift بھی بے پناہ مقبول ہوئیں۔ یہ تینوں کتب تقریباً ڈیڑھ ہزار صفحات پر مشتمل ہیں۔ ان کتب کے لب لباب کو ایک فقرے میں بیان کرنا ہو تو کہا جائے گا کہ جدید مغربی تہذیب کی تباہی یقینی ہے۔ مگر یہ نتیجہ نکالنے والے ایلون ٹوفلر نے لکھا ہے کہ جدید مغربی تہذیب کا بحران سائنس اور ٹیکنالوجی نے پیدا کیا ہے اور وہی اس بحران کو دور کریں گے۔ ہمیں اس سلسلے میں مذہب کی مدد کی ہرگز ضرورت نہیں۔ دیکھا جائے تو ’’تنقیدی فکر‘‘ کا تقاضا یہ تھا کہ ایلون ٹوفلر کو یہ خیال آتا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے پیدا کردہ بحران کے سلسلے میں ایک بار سہی مذہب کی مدد لے کر دیکھتے ہیں کیا خبر مذہب ہمیں اس بحران سے نکال لے۔ مگر ایلون ٹوفلر نے صاف کہہ دیا کہ ہم بیشک فنا ہوجائیں گے مگر مذہب کی مدد نہیں لیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہی مغرب کی تنقیدی فکر ہے؟ کیا ایسا ذہن کبھی کسی حقیقی مکالمے پر آمادہ ہوسکتا ہے؟۔
آج سے پچیس سال قبل ایک سیکولر دانش ور نے ہم سے کہا کہ اہل مذہب ایمان اور یقینی کو ایک علمی طریقہ کار کے طور پر بروئے کار لاتے ہیں لیکن شک یا Doubt ایمان اور یقین سے بہتر علمی طریقہ کار ہے۔ مغرب کی ساری علمی فتوحات شک کا حاصل ہیں۔ ہم نے عرض کیا کہ نفسیاتی اور ذہنی اعتبار سے شک کا وجود ہی نہیں۔ شک کی بنیاد پر انسان کا ذہن ایک سینٹی میٹر بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ چناں چہ متشککین نظری طور پر خواہ کچھ کہیں مگر عملاً وہ شک پر ’’ایمان‘‘ لائے ہوئے ہوتے ہیں۔
تب کہیں جا کر ان کا ذہن شک کو علمی طریقہ کار کے طور پر بروئے کار لاپاتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایمان اور یقین انسانی ذہن کی ساخت یا Structure کا حصہ ہے۔ آخر اس شخص میں جو خدا کے وجود کو مان کر چلتا ہے اور اس شخصیت میں جو یہ مان کر چلتا ہے کہ خدا نہیں ہے، اصولی اعتبار سے کیا فرق ہے؟ دیکھا جائے تو دونوں طرف ایمان اور یقین ہی جلوہ فرما ہے۔ اگر ایمان لانے والے نے خدا کو نہیں دیکھا تو خدا کے منکر نے کہاں سے دیکھ لیا کہا خدا نہیں ہے۔
یہاں مکالمے کے سلسلے میں ایک بات کا ذکر ضروری ہے۔ بلاشبہ مکالمہ مساوی الحیثیت لوگوں کے درمیان ہوتا ہے مگر لوگوں کو مساوی الحیثیت بنانے کے سلسلے میں سماجیات، طاقت اور معاشیات پر انحصار حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ اس لیے کہ ان میں سے کوئی شے بھی حقیقی اور آفاقی مساوات تخلیق نہیں کرسکتی۔ حقیقی اور آفاقی مساوات صرف ایک شے تخلیق کرسکتی ہے اور وہ ہے محبت۔ محبت بادشاہ اور فقیر کو مساوی بنادیتی ہے۔ محبت حاکم اور محکوم کو مساوی بنادیتی ہے۔ محبت خوبصورت اور کم صورت کو مساوی بنادیتی ہے۔ ایک ملک اور ایک معاشرے میں نہیں۔ ہر ملک اور ہر معاشرے میں۔ مگر محبت اور تنقیدی فکر ایک دوسرے کی ضد ہے۔ اسی لیے اقبال نے صاف کہا ہے۔
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
اصول ہے جو محبت کرتا ہے وہ تنقید سے بلند ہوجاتا ہے اور جو تنقید کرتا ہے وہ کبھی محبت نہیں کرپاتا۔ کسی سے بھی نہیں۔