امریکا کو طالبان کا پیغام

186

افغان طالبان نے امریکا کو واضح پیغام دیا ہے کہ یا تو افغانستان سے نکل جائے یا پھر سوویت یونین کی طرح شکست تسلیم کرلے۔ طالبان نے اعلان کیا ہے کہ امن معاہدہ ہونے کے بعد عام معافی کا اعلان کریں گے۔ یوں تو امریکی شکست افغانستان کے چپے چپے پر لکھی ہوئی ہے لیکن اس شکست کا تماشا تو دنیا نے دیکھ لیا ہے، خود امریکی چیختے پھر رہے ہیں کہ ہمیں افغانستان سے نکالو۔ صدر ٹرمپ آدھی فوج نکالنے کا اعلان بھی کرچکے ہیں، پاکستان نے امریکیوں کی مدد کی اور انہیں طالبان کے ساتھ میز پر بٹھادیا ہے۔ امریکی بھی یہ جانتے ہیں کہ یہ مذاکرات افغانستان میں اختیارات کی تقسیم یا علاقوں پر کنٹرول کے لیے نہیں ہورہے بلکہ افغانستان سے امریکی انخلا کی شرائط اور تاریخوں پر بات چیت ہورہی ہے۔ لیکن امریکیوں کی تاریخ بھی عجیب ہے وہ شکست کھا کر بھی یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم کامیاب ہوگئے ہیں۔ شام میں بھی انہوں نے داعش کا خاتمہ کرلیا ہے اور افغانستان میں بھی القاعدہ کا کام تمام کرچکے۔ لیکن حقائق تو اس کے برعکس ہیں جن گروپوں کو یہ القاعدہ اور داعش بتاتے ہیں اور چھوڑ جاتے ہیں وہ نئے گروپوں میں ضم ہو کر نئی مصیبت کھڑی کرتے ہیں اور امریکی ہی ان کی سرپرستی کرتے ہیں تا کہ ان کے جانے کے بعد بھی بدامنی باقی رہے۔ بہرحال امریکی یہ کبھی نہیں کریں گے کہ افغانستان میں اپنی شکست کا دو ٹوک اعلان کریں۔ لہٰذا طالبان کی شرائط تسلیم کرتے ہوئے امریکا اپنی بقیہ سات ہزار فوج کے انخلا کا شیڈول بھی تیار کرلے۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جو بیان جاری کیا ہے اس کی زبان ہی بتارہی ہے کہ طالبان اس وقت افغانستان میں فاتح ہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ تمام افغان شہریوں کو یقین دلاتے ہیں کہ طالبان کے آنے کے بعد امن آئے گا کسی شہری کو انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا، خواہ وہ فوج میں ہو، پولیس میں یا کسی اور شعبے میں ۔ ہمارا اختلاف غیر ملکی افواج سے ہے۔ ذبیح اللہ کا انداز ایک فاتح گروہ کے نمائندے جیسا تھا۔ جب کہ فی الحال امریکیوں نے اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔ ویسے امریکیوں کے پاس ردعمل کے لیے کچھ ہے بھی نہیں۔ یہ بھی اہم بات ہے کہ طالبان ترجمان نے یہ بیان سوویت افواج کے افغانستان میں داخل ہونے کے 39 برس مکمل ہونے پر 29 دسمبر کی مناسبت سے جاری کیا ہے۔ اور بیان کا ایک جملہ ہی امریکیوں کے لیے کافی ہے۔ ذبیح اللہ نے انگریزی، پشتو اور دری زبان میں اتنا کہا ہے کہ افغانستان میں سوویت یونین کی شکست سے خبردار رہو اور پہلے سے آزمائے ہوئے افغانوں کی صلاحیتوں کو جانچنا چھوڑ دو۔ ایک اور پیغام بھی خاصا معنی خیز ہے۔۔۔ کہ مستقبل میں طالبان اور امریکا کے تعلقات کسی تنازع کے بجائے سفارتی اور اقتصادی معاملات پر ہونے چاہئیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ طالبان کے سامنے افغانستان کے مستقبل کا نقشہ بھی ہے۔