منی بجٹ نئی قیامت ڈھائے گا

232

وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے نوید دی ہے کہ حکومت جنوری کے وسط تک منی بجٹ لائے گی ۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ منی بجٹ کا تعلق آئی ایم ایف کی شرائط سے نہیں ہے ۔ بجٹ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ حکومت اپنے بڑھتے ہوئے اخراجات کے لیے آمدنی کے نئے ذرائع پیدا کرے ۔ لامحالہ طور پر یہ ذرائع مختلف ٹیکسوں کی شرح میں اضافے یا نئے ٹیکس لگانے سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ جیسے ہی نئے محصولات عائد کیے جاتے ہیں یا ان کی موجودہ شرح میں اضافہ کیا جاتا ہے ، حکومت میں موجود افراد ایک رٹا رٹایا جملہ دہرانا نہیں بھولتے کہ اس سے غریب یا عام افراد پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ پہلی بات تو یہ سمجھ میں نہیں آتی کہ جب مسلسل منی بجٹ ہی لانے ہیں تو حکومت سالانہ بجٹ کا اعلان کرنے کا تکلف ہی کیوں کرتی ہے ۔ پہلے سے ہی طے کرلیا جائے کہ اب ماہانہ یا سہ ماہی بنیادوں پر بجٹ کا اعلان کیا جائے گا۔ حکومت پہلے ہی ماہانہ بنیادوں پر پٹرول، گیس اور بجلی کے نرخوں کا اعلان کرتی ہے ۔ یہ تینوں وہ اجزاء ہیں جو صنعتی پیدوار کی لاگت میں اہم کردار اداکرتے ہیں ۔ اب کوئی صنعتکار کس طرح اپنی برآمدات کے لیے طویل مدتی معاہدہ کرسکتا ہے جبکہ پٹرول ، گیس اور بجلی کے نرخ ہر ماہ بڑھ رہے ہوں ۔ آئی ایم ایف کے دباؤ میں آ کر حکومت نے نہ صرف پٹرول، بجلی اور گیس کے نرخوں میں بلاجواز اضافہ کیا بلکہ روپے کی قدر بھی دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں گرادی ۔ اس کا نتیجہ گرانی کے طوفان کی صورت میں نکلا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کو اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے منی بجٹ لانا پڑ رہا ہے ۔ اب یہ کون بتائے گا کہ حکومت نے تو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے محصولات میں اضافہ کردیا مگر ایک عام آدمی اس گرانی کا مقابلہ کرنے کے لیے کون سے اور کہاں سے نئے وسائل پیدا کرے۔ صرف روپے کی قدر میں کمی ہی اتنے خوفناک اثرات کا باعث ہے جس کی وجہ سے پوری معیشت کے تار و پود بکھر کر رہ گئے ہیں مگر حکومت میں بیٹھے نیرو چین کی بانسری بجارہے ہیں۔ جب زیادہ شور مچتا ہے تو یہ کہہ کر تسلی دے دی جاتی ہے کہ یہ تکلیف چند دنوں کی ہے ۔ افراط زر کی بڑھتی ہوئی شرح کے باعث ایک عام آدمی کے اخراجات میں اچانک ہر ماہ کئی روپے کا اضافہ ہو رہاہے ۔ اخراجات میں اضافے کے برعکس تنخواہ دار طبقے کی آمدنی ایک جگہ منجمد ہے ۔ اس کے علاوہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا عفریت الگ سے پورے ملک کو کھائے جارہا ہے ۔ عمران خان کو حکومت سنبھالے ابھی چند ماہ بھی نہیں گزرے ہیں کہ عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں ۔ کرپشن کا خاتمہ تو کیا ہوتا ، اس میں روز اضافہ ہی ہورہا ہے ۔ مہنگائی اور اسٹریٹ کرائم نے بھی نئے ریکارڈ قائم کردیے ہیں ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ تاریخ میں جتنا پیچھے کی طرف سفر کریں اتنا ہی زیادہ ترقی نظر آتی ہے ۔ چالیس اور ساٹھ برس پہلے کے پاکستان کا تو ذکر کیا ، اب تو بیس برس پہلے کا پاکستان بھی غنیمت معلوم ہوتا ہے ۔ اگر نئے پاکستان کی یہی تعبیر ہے کہ ساری کرپٹ بیوروکریسی اور دیگر مافیاز آزاد ہیں اور عوام روز گرانی کے نئے بوجھ کو اٹھانے پر مجبور ہیں تو پھر شایدہی کوئی عام فرد ہوگا جو نئے پاکستان کا خواہاں ہوگا۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ لوگ التجا کرنے لگے ہیں کہ گرانی کم نہ کریں تو ایک نقطے پر منجمد ہی کردیں یہی قوم پر احسان ہوگا ۔ پاکستان میں یہ طریقہ واردات عام ہے کہ سالانہ بجٹ آنے والا ہو یا کسی منی بجٹ کا ’’مژدہ‘‘ سنایا جائے، تاجر برادری احتیاطاً قیمتیں بڑھا دیتی ہے یا منافع خور حضرات اشیائے ضرورت روک لیتے ہیں کہ قیمت بڑھنے پر زیادہ منافع کمایا جا سکے۔ اسے اسلامی اصطلاح میں ’’احتکار‘‘ کہتے ہیں جس کی سخت ممانعت ہے۔ لیکن ایسے لوگ کم نہیں ہیں جو تجارت کے ذریعے حلال کی کمائی میں حرام شامل کر کے اسے منافع سمجھیں۔ چنانچہ خدشہ یہی ہے کہ منی بجٹ آنے سے پہلے ہی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی یا غائب کر دی جائیں گی۔ فی الوقت تو یہی کام خود حکمران کر رہے ہیں اور متعدد اشیاء کی قیمت بڑھائی جا چکی ہے۔ گیس کی قیمتیں بے تحاشا بڑھائے جانے کے باوجود صورتحال یہ ہے کہ دارالحکومت اسلام آباد سمیت پورے پنجاب میں ہا ہا کار مچی ہوئی ہے۔ 20، 20 گھنٹے تک گیس نہیں مل رہی۔ گھریلو صارفین تو پریشان ہیں ہی، صنعتوں کو گیس فراہم نہیں کی جا رہی جس سے صنعتوں کے بند ہونے کا خطرہ منڈلا رہا ہے جب کہ اس وقت برآمدات بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ پنجاب بھر میں سی این جی کے پمپس 10 جنوری تک بند رہیں گے۔ صنعتیں بند ہونے اور سی این جی کی فراہمی نہ ہونے سے متعدد افراد بے روزگار ہو جائیں گے۔ عمرانی حکومت کب تک سابقہ حکومتوں کو الزام دیتی رہے گی۔ اب بہت ہو گیا؟ اپنے وجود کا ثبوت بھی تو فراہم کرے، عمران خان کہتے ہیں کہ سندھ سے چیخیں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ ذرا کان لگا کر سنیں، ملک بھر کے غریب عوام کی چیخیں بھی سنائی دے جائیں گی۔