ہم نے لڑکپن میں مجنوں پر پتھر تونہیں اٹھایا تھا کہ سر یاد آتا مگر کسی سیانے کا ایسا قول سنا تھا کہ سر چکرا گیا تھا آپ بھی سنیے یقیناًآپ کا سر بھی چکرا جائے گا۔ دیکھیے کیسا عجیب قول ہے۔ آگاہی سے بڑا کوئی عذاب نہیں اور بے خبری سے بڑی راحت نہیں۔ ہم نے اس کے مفہوم تک پہنچنے کی بہت کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکے البتہ بے خبری کی راحت سے آگاہ ضرور ہوگئے۔ افغانستان کے بادشاہ محمود غزنوی نے عمر خیام سے استفسار کیا کہ علم نجوم کی افادیت کیا ہے۔ عمر خیام نے جواب دیا کل بتاؤں گا۔ دوسرے دن سب درباری کسی مسئلے پر محو گفتگو تھے کہ اچانک ایک زور دار دھماکے نے سب کو چونکا دیا، حواس بحال ہوئے تو دیکھا کہ دربار کی چھت سے لوہے کی ایک بڑی پلیٹ پھینکی گئی تھی جس کی زور دار آواز نے سب کو دہلا دیا تھا۔ محمود غزنوی یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ دربار کی چھت میں سراغ کرکے پلیٹ پھینکی گئی تھی۔ اس نے درباریوں کی سمت دیکھا تو عمر خیام نے کہا۔ چھت میں سراغ میں نے ہی کرایا تھا اور پلیٹ بھی میری ہدایت پر پھینکی گئی تھی کیوں کہ آپ نے علم نجوم کی افادیت کے بارے میں استفسار کیا تھا۔ علم نجوم کی افادیت یہی ہے کہ آدمی آنے والے حالات سے باخبر ہوجاتا ہے اور وہ اس کا تدارک کرنے اور مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ پلیٹ گرنے پر سب کا چونکنا فطری عمل تھا اگر یہ علم ہوتا کہ پلیٹ دربار میں گرے گی تو کوئی بھی نہ چونکتا کیوں کہ انہیں اس کا علم ہوتا آدمی اسی وقت چونکتا ہے جب کوئی ناگہانی ظہور پزیر ہوتی ہے۔ یہ حکایت پڑھ کر ہم بے خبری کی راحت سے تو آگاہ ہوگئے مگر آگاہی کے عذاب سے ناواقف ہی رہے مگر وزیراعظم عمران خان کے طرز حکمرانی نے ہمیں آگاہی کے عذاب اور بے خبری کی راحت سے ہی آگاہ
کردیا۔ ڈالر کی قیمت بڑھی تو عمران خان نے کہا مجھے تو اس کا علم ہی نہ تھا، خبریں سن کر معلوم ہوا کہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ گویا عمران خان بے خبری سے لطف اندوز ہورہے تھے اور عوام کو آگاہی کے عذاب سے گزرنے پر مجبور کررہے تھے۔ سگریٹ نوشی پر گناہ ٹیکس کی خبر پر ذخیرہ اندوزوں نے سگریٹ کی مصنوعی قلت پیدا کردی۔ سگریٹ فروش اور سگریٹ نوش آگاہی کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ سگریٹ پر گناہ ٹیکس کا شوشا چھوڑنے میں کیا حکمت پنہاں تھی اور اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟۔ جوں ہی یہ خبر عام ہوئی سگریٹ کی قلت پیدا کردی گئی۔ غالباً جرمنی کے وزیرخزانہ نے بجٹ پیش کرنے کے بعد استعفا دے دیا تھا۔ میڈیا نے مستعفی ہونے کی وجہ دریافت کی تو کہا۔ بجٹ کی تیاری میں مصروف ہونے کے باعث میں نے سگریٹ کی ایک پیکٹ مانگنے کے بجائے ایک درجن
کے قریب پیکٹ منگالیے۔ سگریٹ فروش یہ سمجھ بیٹھا کہ آنے والے بجٹ میں سگریٹ مہنگا ہونے والا ہے سو، انہوں نے سگریٹ کی قلت پیدا کردی۔ چوں کہ عوام کی پریشانی کا باعث میری سستی بنی تھی اس لیے استعفا دے دیا۔ ہماری سیاست کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ سیاست دان اپنی غلطیوں پر اظہار ندامت کرتے ہیں نہ مستعفی ہوتے ہیں۔ اعظم سواتی نے وزارت کے زعم میں ایک غریب کو خاندان سمیت جیل بھیج دیا تھا، پولیس بھی ان کے قہر سے محفوظ نہ رہی۔ میڈیا نے غریب خاندان کے حق میں آواز بلند کی تو اعظم سواتی کو ہوش آیا۔ انہوں نے غریب خاندان سے نہ صرف تکبر کی معافی مانگی بلکہ جیل سے رہائی کا پروانہ بھی دے دیا۔ مگر پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے بھی طلب کرلیا اور پھر سپریم کے خوف اور میڈیا کے ڈر سے مستعفی ہونے پر مجبور ہوگئے۔ ان کامستعفی ہونا خوف اور ڈر کا نتیجہ تھا مگر تحریک انصاف کے پھوپٹو اسے وزیراعظم عمران خان کی جمہوریت پروری اور عوام و خواص کو ایک نظر سے دیکھنے کی پالیسی کا ثمر قرار دے رہے ہیں۔