کیا سب کنٹینر پر چڑھے ہوئے ہیں

207

وفاقی حکومت سندھ میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی کے لیے بے چین ہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت ختم کرنا چاہتی ہے یا اپنی حکومت لانا چاہتی ہے یا کچھ بھی نہیں۔ یہ ایک ایسا ابہام ہے کہ اس کی وجہ سے پورا پاکستانی میڈیا جھنجھنا بجا رہا ہے۔ لیکن اس کا سرا مل نہیں رہا، اور سرا ملے گا کیسے! اس لیے کہ سرا ہے ہی نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ حکومت جس نے بنائی ہے وہی چلا رہا ہے جو لوگ حکومت میں ہیں وہ وزارتیں چلارہے ہیں اور انہیں کچھ نہیں معلوم کہ پالیسی کہاں کیسے اور کون بناتا ہے۔ ایک دن مسلم لیگ ن نے دعویٰ کیا کہ اب ہم ان ہاؤس تبدیلی لائیں گے۔ اپوزیشن تو ابھی یکجا بھی نہیں تھی کہ وفاقی حکومت پیپلزپارٹی پر دباؤ ڈالنے کے لیے میدان میں کود پڑی۔ نا تجربہ کاری کی وجہ سے جو کام اور بات آخر میں کرنی تھی وہ ابتداء میں ہی کر ڈالی یعنی سندھ میں گورنر راج نافذ کرنے کی پھلجھڑی چھوڑ دی، خوب شور مچایا پھر ایک اور شوشا چھوڑا کہ جی ڈی اے کے ساتھ مل کر پی ٹی آئی حکومت بنائے گی۔ گورنر سندھ سے ملاقاتیں بھی شروع کردی گئیں۔ اس حوالے سے 89 اراکین کی حمایت کی خبر بھی اپنے زیر کنٹرول ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے اچھالی گئیں۔ لیکن اس کے اگلے دن عدالت عظمیٰ نے غبارے کی ساری ہوا نکال دی کہ محض جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر گورنر راج نہیں لگنے دیں گے۔ چند منٹ میں گورنر راج کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ پھر حکومت کو یاد آیا کہ گورنر راج لگانے کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ یہ بڑھک مارنے والے جنرل پرویز کے سابق ترجمان سیاسی اور جمہوری روایات سے ناواقفیت کی وجہ سے غلط بات کہہ گئے۔ اب 18 ویں ترمیم کے بعد صدر کی جانب سے صوبے کے حالات کے خراب ہوجانے پر صدارتی حکم جاری کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے صوبائی اسمبلی کی قرار داد ضروری ہے اور پیپلزپارٹی ابھی کوئی قرار داد لانے کے موڈ میں نہیں۔ بلکہ اس کے بعد بھی اگر صدر از خود یہ اقدام کرتا ہے تو اس کے دس دن کے اندر اندر اس اقدام کی قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری لینا ہوگی۔ قومی اسمبلی سے تو منظوری کا امکان تھا لیکن کیا حکومت سینیٹ سے ایسا کرا سکتی ہے۔ چیف جسٹس تک کو معاملہ پہنچا ہی نہیں بلکہ یہ معاملہ الٹا وفاقی حکومت کے گلے پڑ جاتا کیونکہ یہ سرا سر غیر آئینی اقدام ہے۔ چیف جسٹس کی جانب سے جے آئی ٹی رپورٹ پر حکومت گرانے اور گورنر راج کو ایک منٹ میں اڑانے کی بات سنتے ہی فواد چودھری کا فاتحانہ دورہ سندھ منسوخ ہوگیا۔ یہ خبر اڑا دی گئی کہ وزیراعظم نے فواد چودھری کو یہ مشورہ دیا کہ یہ تاثر نہیں بننا چاہیے کہ وفاقی حکومت سندھ حکومت کے خلاف سازشیں کررہی ہے۔ پتا نہیں تاثر اور کس چیز کو کہتے ہیں۔ وزیراعظم ان کی کابینہ کے سارے اہم وزرا سندھ ، زرداری اور خورشید شاہ کی چیخوں کی بات کرتے ہیں۔ ارکان کی گنتی بتاتے ہیں۔ ملاقاتیں کرتے ہیں اور پھر بھی کہتے ہیں کہ تاثر نہیں بننا چاہیے۔ چیف جسٹس کے بیان کے بعد عذر گناہ بد تر از گناہ فواد چودھری صاحب فرماتے ہیں کہ ہم سندھ میں گورنر راج نہیں وزیراعلیٰ کی تبدیلی چاہتے ہیں کیونکہ مراد علی شاہ کے خلاف سنگین الزامات ہیں۔ یہ منطق بھی درست نہیں، اس اعتبار سے تو کوئی نہیں بچے گا، وزیراعلیٰ کے پی کے، وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک، وزیراعظم،جہانگیر ترین اور کابینہ کے وزراء کو استعفیٰ دینا چاہیے۔ لیکن اس بیان کا مطلب بھی یہی ہے کہ وفاقی حکومت سندھ حکومت کے پیچھے پڑے ہوئی ہے۔ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کا بھی سارا زور اس معاملے پر ہے۔ پھر یہ منی بجٹ کون تیار کررہا ہے۔ سب تو حکومت گرانے بچانے کے دعووں اور حمایت یافتہ ارکان کی گنتی میں لگے ہوئے ہیں۔ چھ ماہ ایسے گزار دیے جیسے کوئی بات ہی نہیں ہوئی۔ ایسا لگ رہا ہے ملک بھر کے سیاسی رہنما حکومت اور اپوزیشن اپنے اپنے کنٹینروں پر چڑھے ہوئے ہیں اور چڑھے ہوئے ہی نہیں، بھانت بھانت کی بولیاں بھی بول رہے ہیں۔ سیاست اور جمہوریت کے نام پر فلمی ڈراما چل رہا ہے۔ برقی ذرائع ابلاغ کا بھلا ہو کہ ماضی میں کس نے کیا کہا، سب کچھ ریکارڈ پر ہے اور موقع، محل کی مناسبت سے عوام کی یاد داشت تازہ کردی جاتی ہے۔ نواز شریف کے خلاف جے آئی ٹی بننے اور تحقیقات شروع ہونے پر پیپلزپارٹی نے مطالبہ کیا تھا کہ وزیراعظم اپنے منصب سے استعفا دیں اور الزامات سے بری ہوجائیں تو دوبارہ منصب سنبھال لیں۔ پیپلزپارٹی کے ترجمان مولا بخش چانڈیو نے جوش مسرت میں نعرہ لگایا تھا کہ ’’ٹھاکر تو گیو‘‘ ایک بھارتی فلم کا یہ ڈائیلاگ انہیں بہت پسند آیا۔ لیکن اب یہی بات ان پر الٹ گئی ہے کہ جب زرداری، بلاول، فریال اور مراد علی شاہ کا نام جے آئی ٹی میں آیا ہے تو ان کے لیے کوئی نعرہ نہیں لگا رہا کہ یہ ٹھاکر بھی گئے۔ اب کیوں نہ منصب چھوڑ کر جے آئی ٹی کا سامنا کریں۔ اب جے آئی ٹی ہی کو ردی کا پلندہ قرار دیا جارہا ہے۔