نامرادیوں سے عبارت، مسلم لیگ کے 112سال (آخری حصہ)

145

1988 میں جنرل ضیا کی ہلاکت کے بعد جب ملک میں عام انتخابات ہوئے تو فوج اور قائم مقام صدر غلام اسحاق خان نے بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کے سیلاب کے خلاف بند باندھنے کے لیے فوج کی مدد سے نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ کے احیاء کے جتن کیے۔ پنجاب میں اس سلسلے میں خاطر خواہ کامیابی تو ہوئی، لیکن فوج کی پروردہ اس مسلم لیگ کو جب 1997 کے انتخابات میں فوج کی اعانت سے کامیابی حاصل ہوئی تو اقتدار کے نشہ میں نواز شریف کی مسلم لیگ نے فوج ہی کی قیادت سے معرکہ آرائی کا سلسلہ شروع کردیا جس کا نتیجہ 1999 میں اقتدار پر دوبارہ فوج کے قبضے کی صورت میں سامنے آیا جس کے بعد پھر فوج نے سیاسی حمایت کے لیے اسی مسلم لیگ کا سہارا لیا اور اسے دو ٹکروں میں تقسیم کردیا۔ فوج کا ساتھ دینے والوں نے قائد اعظم مسلم لیگ کے نام سے اپنا دھڑا قائم کیا اور نواز شریف کی مسلم لیگ نون لیگ کہلائی۔ اور پھر جنرل مشرف نے معزول ہونے کے بعد اقتدار کی چاہت میں لندن کی جلاوطنی کے زمانے میں اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ کھڑی کی جس کا نشان اب کہیں نظر نہیں آتا۔ بہر حال اس وقت پانچ مسلم لیگیں ہیں۔ ق، ن، فنکشنل، جونیجو اور ضیا گروپ اور چھٹی شیخ رشید کی مسلم لیگ ہے۔ یہ تمام مسلم لیگیں محض مسلم لیگ کے نام پر اپنی سیاسی دکانیں چمکا رہی ہیں صرف اس بنا پر کہ ان کی جماعتوں کا نام آل انڈیا مسلم لیگ سے وابستہ ہے جو پاکستان کو اپنا سیاسی ورثہ گردانتی ہے۔ مسلم لیگ ن جو پچھلے پانچ سال سے برسر اقتدار تھی، تحریک انصاف کی کرپشن کے خلاف سونامی کے سامنے ڈھیر ہو گئی ہے اور اپنے قائد نواز شریف کی نااہلی اور سات سال قید کی سزا کے بعد اس کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔
آل انڈیا مسلم لیگ اور قیام پاکستان کے بعد اس کی وارث مسلم لیگوں کے کل ملک کر پچھلے ایک سو بارہ برس کے دور پر ایک اجمالی نظر ڈالی جائے تو برصغیر میں ایک نئی مملکت کے حصول کے سوا اس کے ورثہ کی جھولی میں کچھ نہیں محض ناکامیوں اور نامرادیوں کے اور یہ نئی مملکت بھی اپنے قیام کے چوبیس سال بعد دو لخت ہوگئی جس کے قیام میں وہ پیش پیش تھی۔ عصری تاریخ میں اس نامرادی کی نظیر نہیں ملتی۔ 30 دسمبر 1906 کو جب ڈھاکا کے شاہ باغ میں مسلم رہنماؤں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام کا فیصلہ کیا تھا تو بنیادی مقصد پورے برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی اور حقوق کے تحفظ اور مسلمانوں کی تعلیم اور ان کے روزگار کے فروغ کے لیے جد وجہدکرنا تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے مسلم اکثریت والے علاقوں میں پاکستان کے قیام سے یہ مقصد تو جزوری طور پر حاصل کر لیا لیکن 1947 کے بعد وہ مسلمان یکسر بے یار و مددگار رہ گئے جو قیام پاکستان کے بعد پاکستان منتقل نہ ہو سکے اور ہندوستان ہی میں رہ گئے۔ آل انڈیا مسلم لیگ ان مسلمانوں کے حقوق کا قطعی کوئی تحفظ نہ کر سکی اور نہ ان کے مفادات کی دیکھ بھال کر سکی۔
آل انڈیا مسلم لیگ پر اس کے نکتہ چینوں کی یہ نکتہ چینی بجا نظر آتی ہے کہ بنیادی طور پر یہ جماعت برصغیر کے نوابین، تعلقہ داروں، جاگیر داروں، وڈیروں۔ خوانین، قبائلی سرداروں اور ابھرتے ہوئے مسلم صنعت کاروں اور تاجروں کی جماعت تھی جو ٹاٹا، برلا اور ڈالمیا ایسے بڑے بڑے صنعت کاروں کا مقابلہ کرنے میں بے بس نظر آتے تھے، اور حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ کی قیادت نے قیام پاکستان کے لیے ان ہی عناصر کی مدد اور اعانت حاصل کی کیوں کہ انہیں صرف ایک علاحدہ مملکت ہی میں اپنے مفادات کے تحفظ اور فروغ کے امکانات ظر آتے تھے۔ بنگال میں ڈھاکا کے نوابین پیش پیش تھے۔ یوپی میں مقروض تعلقہ دار اور زمیندار مسلم لیگ کی حمایت میں آگے آگے تھے۔ سندھ میں مسلم لیگ کی قیادت کا دارومدار وڈیروں اور سیدوں پر تھا پنجاب میں جاگیردار اور زمیندار مسلم لیگ کے علم بردار تھے اور رہی سہی کسر مسلم لیگ نے جاگیر داروں کی تنظیم یونینسٹ پارٹی سے اتحاد کر کے پوری کر دی جس کے علامہ اقبال جیسے رہنما سخت مخالف تھے۔ ادھر صوبہ سرحد میں مسلم لیگ نے بڑے بڑے خوانین سے ہاتھ ملایا۔ نتیجہ یہ کہ قیام پاکستان کے بعد یہ طبقے ملک کی سیاست پر ایسے حاوی رہے کہ انہوں نے یہ نیا ملک حاصل کیا ہے اور ا نہیں ہی اس پر حکمرانی کا حق ہے۔ مسلم لیگی حکمران اپنے قائم کردہ اسی حصار میں ایسے محصور رہے کہ کسی کو اس کی ہمت نہیں ہوئی کہ جاگیر دارانہ نظام اور وڈیرہ شاہی کے خلاف آواز اٹھا سکے یا اس کے استیصالی نظام کے خاتمے کے لیے کوئی موثر تحریک چلا سکے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ملک میں جاگیردارانہ نظام کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کا نظام فروغ نہیں پا سکا ہے اور حتی کہ اپنے آپ کو روشن فکر کہلانے والی جماعتوں پر بھی اسی طبقہ کا تسلط برقرار رہا ہے اور ان کی قیادت پر جاگیردارانہ وراثت کا سلسلہ جاری ہے ایسے حالات میں ان سیاسی جماعتوں سے یہ توقع کرنا نامکنات کو ممکن ثابت کرنا ہے کہ یہ ملک سے غربت و افلاس کے خاتمے، عدم مساوات کو مٹانے اور سماجی اصلاحات کے نفاذ کے لیے ملک میں کوئی ذہنی یا نظریاتی انقلاب لا سکیں گی۔ دوسری جماعتوں کی طرح آج حکمران مسلم لیگ ایسی کشتی بن کر رہ گئی ہے جو مفادات کی ہوا کے رخ پر چلتی ہے اور اسی کے مطابق اپنا رخ موڑ لیتی ہے۔ غرض آل انڈیا مسلم لیگ کی ایک سو بارہ سال کی داستان، محض نامرادیوں سے عبارت ہے۔