1960ء کی دہائی کی بات ہے۔ ملکہ برطانیہ اور ان کے شوہر پاکستان کے دورے پر تشریف لائے۔ ایوب خان مہمانوں کو برن ہال اسکول ایبٹ آباد لے گئے۔ ملکہ تو ایوب خان کے ساتھ بچوں سے ہاتھ ملاتی ہوئی آگے بڑھ گئیں لیکن ان کے شوہر بچوں سے باتوں میں لگ گئے۔ پوچھا ’’بڑے ہوکر کیا بنوگے؟‘‘۔ بچوں نے جواب دیا ’’ڈاکٹر، انجینئر، پائلٹ، آرمی افیسر وغیرہ وغیرہ‘‘ وہ خاموش ہوگئے۔ لنچ پر انہوں نے ایوب خان سے کہا کہ ’’آپ کو اپنے ملک کے مستقبل کی فکر کرنی چاہیے‘‘۔ معزز مہمان نے اس کے بعد کیا کہا، ایوب خان نے کیا جواب دیا، ان باتوں کو ذرا دیر کے لیے یہیں چھوڑ کر آئیے معاشرے میں استاد کے کردار اور فضائل پر بات کرتے ہیں۔ پہلے ایک شعر:
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل جاتے ہیں
رسالت مآب محمد ؐ کا فرمان ہے ’’مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا‘‘ ایک اور موقع پر عالی مرتبت ؐ نے فرمایا ’’تمہارے تین باپ ہیں۔ ایک وہ جو تمہیں اس دنیا میں لایا۔ دوسرا وہ جس نے تمہیں اپنی بیٹی دی اور تیسرا وہ جس نے تمہیں علم دیا۔ ان سب میں افضل وہ ہے جس نے تمہیں علم دیا۔‘‘ سیدنا علیؓ فرمایا کرتے تھے ’’میں اس شخص کا غلام ہوں جو مجھے ایک حرف بھی سکھا دے، اگر وہ چاہے تو مجھے بیچ دے اور چاہے آزاد کردے‘‘۔ خلیفہ ہارون رشید نے امام مالکؒ سے حدیث پڑھنے کی درخواست کی۔ امام مالک ؒ نے فرمایا ’’لوگ علم کے پاس آتے ہیں۔ علم لوگوں کے پاس نہیں جاتا۔ تم کچھ سیکھنا چاہتے ہو تو میرے درس کے حلقے میں آجاؤ‘‘ ہارون رشید حلقہ درس میں آئے اور دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ عظیم معلم نے دیکھا تو سختی سے کہا ’’خدا کی تعظیم میں یہ بھی شامل ہے کہ بوڑھے مسلمان اور اہل علم کا احترام کیا جائے۔‘‘ یہ سننا تھا کہ خلیفہ ہارون رشید استاد کے سامنے با ادب کھڑے ہوگئے۔ خلیفہ ہارون رشیدکا یہی طرز عمل تھا کہ ان کے دوصاحبزادے جو امام نسائی کے شاگرد تھے۔ ایک بار اس بات پر جھگڑ پڑے کہ استاد کے پاؤں میں جوتا کون پہنائے گا۔ تکرار کے بعد یہ طے پایا کہ دونوں ایک ایک جوتا استاد کے پاؤں میں پہنانے کا شرف حاصل کریں گے۔ خلیفہ کو واقعے کی خبر ہوئی تو بصد احترام امام نسائی سے دربار میں آنے کی درخواست کی۔ امام تشریف لائے تو خلیفہ نے امام سے پوچھا ’’استاد محترم فی الوقت سب سے زیادہ عزت واحترام کے لائق کون ہے‘‘۔ خلیفہ کے سوال پر امام چونکے اور محتاط انداز میں جواب دیا ’’خلیفہ وقت‘‘ ہارون رشید مسکرایا اور کہا کہ ’’ہرگز نہیں سب سے زیادہ عزت کا مستحق وہ استاد ہے جس کے جوتے اٹھانے کے لیے خلیفہ کے بیٹے آپس میں جھگڑا کرتے ہیں۔‘‘ امام ابو حنیفہ ؒ فرماتے تھے ’’میں ہر نماز کے بعد اپنے استاد اور والد محترم کے لیے دعا کرتا ہوں۔ میں نے کبھی بھی اپنے پاؤں استاد محترم کے گھر کی طرف دراز نہیں کیے حالاں کہ میرے اور ان کے گھر کے درمیان سات گلیاں واقع ہیں۔‘‘ مولانا روم کا ارشاد ہے ’’مجھے آج بھی وہ جگہ اچھی طرح یاد ہے جہاں میری اپنے روحانی استاد شمس تبریز سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ استاد کی دائمی جدائی کا غم شدت اختیار کرلیتا ہے تو میں چلے میں بیٹھ کر استاد کے سکھائے ہوئے محبت کے چالیس اصولوں پر غور و خوص شروع کردیتا ہوں۔ مجھے یقین ہے استاد محترم اس دنیا سے رخصت ہوئے تو دنیا کے کسی اور کونے میں کسی اور نام سے ایک اور تبریز نے جنم لیا ہوگا کیوں کہ شخصیت تو بدل جاتی ہے لیکن روح وہی رہتی ہے۔‘‘
استاد بادشاہ نہیں ہوتا لیکن بادشاہ بناتا ہے۔ فاتح عالم سکندر اعظم اپنے استاد ارسطو کے ساتھ تھا۔ راستے میں ایک بپھرا ہوا برساتی نالہ آیا۔ یہاں استاد اور شاگرد کے درمیان بحث شروع ہوگئی کہ پہلے نالے کے پار کون اترے گا۔ ارسطو کو بات ماننا پڑی اور پہلے سکندر نے نالہ پار کیا۔ استاد اور شاگرد دونوں نالے کے پار اترے تو ارسطو نے سختی سے سکندر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’کیا تم نے مجھ سے پہلے نالہ پار کرکے میری تو ہین نہیں کی ہے؟‘‘۔ سکندر نے خم ہوکر انتہائی ادب سے کہا ’’نہیں استاد محترم! نالہ بپھرا ہوا تھا میں اطمینان کرنا چاہتا تھا نالہ پار کرنے کی صورت میں آپ کو نقصان نہ پہنچے کیوں کہ ارسطو موجود ہوگا تو ہزاروں سکندر اعظم وجود میں آجائیں گے لیکن سکندر ایک بھی ارسطو پیدا نہیں کرسکتا۔‘‘
استاد ایک چراغ ہے جو راستوں کو روشن کرتا ہے، پھول ہے جو خوشبو پھیلاتا ہے، رہنما ہے جو منزل کی سمت گامزن کرتا ہے۔ معاشرے استاد کی عزت سے مقام پاتے ہیں، ترقی کرتے ہیں۔ اشفاق احمد زاویہ میں لکھتے ہیں کہ روم میں قیام کے دوران ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر مجھ پر جرمانہ عائد کیا گیا۔ میں مصروفیات کی وجہ سے چالان جمع نہ کراسکا تو مجھے کورٹ میں پیش ہونا پڑا۔ کمرہ عدالت میں جج مجھ سے سوال کرتا رہا کہ آپ نے کیوں چالان جمع نہیں کیا۔ مجھے جج کو جواب دینے کی ہمت نہیں ہوئی بس میں یہی کہتا رہا کہ میں یہاں پردیسی ہوں۔ اس پر جج نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کرتے کیا ہیں، میں نے بڑی شرمندگی سے سر جھکا کر جواب دیا کہ جی میں ٹیچر ہوں۔ یہ سننا تھا کہ جج اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اور سب کو حکم دیا ’’اے ٹیچر ان دی کورٹ‘‘ سب احترام میں اپنی کرسیوں سے کھڑے ہوگئے۔ اشفاق احمد کہتے ہیں پھر جج نے انہیں یوں مخاطب کیا جیسے بڑے ہی شرمندہ ہوں۔ اسی شرمندگی میں جج نے کہا ’’جناب آپ استاد ہیں۔ ہم جو آج جج، ڈاکٹر، انجینئر جو کچھ بھی بنے بیٹھے ہیں وہ آپ اساتذہ ہی کی بدولت ممکن ہو پایا ہے، مجھے بہت افسوس ہے کہ انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کرآپ کو چالان ادا کرنا ہوگا کیو ں کہ بہر حال آپ سے غلطی ہوئی ہے مگر میں آپ سے بہت شرمندہ ہوں‘‘۔
اب آتے ہیں کالم کی ابتدا کی جانب۔ ملکہ برطانیہ کے شوہرنے ایبٹ آباد کے اسکول کے بچوں سے پوچھا آپ بڑے ہوکر کیا بنوگے۔ بچوں نے جواب دیا ’’ڈاکٹر، انجینئر، پائلٹ۔‘‘ لنچ پر انہوں نے صدر ایوب خان سے کہا ’’آپ کو اپنے ملک کے مستقبل کی فکر کرنی چاہیے۔ میں نے بیس بچوں سے بات کی۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ اسے ٹیچر بننا ہے اور یہ بہت خطرناک ہے‘‘ اس واقعے کو نصف صدی سے زاید عرصہ گزر چکا ہے۔ پاکستان میں آج بھی بچوں کی ترجیحات میں ٹیچر بننا کہیں شامل نہیں۔ کیا بچوں کا یہ فیصلہ غلط ہے۔ جواب دینے سے پہلے ایک میت کی طرف نظر کر لیجیے۔ یہ میت ہتھکڑی لگی ہوئی ہے۔ یہ میت ایک استاد کی ہے۔ سرگودھا یو نیورسٹی لاہور کیمپس کے استاد میاں جاوید کی جو نیب کی حراست میں دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا گئے۔ مرنے کے بعد بھی جن کی ہتھکڑیاں نہیں اتاری گئیں۔ دوسرا منظر چار سو افراد کے قتل میں ملوث راؤ انوار اور اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث شرجیل میمن کا ہے۔ کسی میں ہمت نہیں کہ انہیں ہتھکڑیاں لگا سکیں۔ راؤ انوار کے لیے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا سب سے بڑا پروٹو کول والا دروازہ بھی کھل جاتا ہے جس سے گزر کر وہ عدالت عظمیٰ میں داخل ہوتا ہے لیکن اعلیٰ ترین تعلیم یافتہ اسکالر اور ہزاروں طالب علموں کے استاد کو ہتھکڑیاں لگاکر عدالت میں پیش کیا جاتا ہے اور مرنے کے بعد بھی ذلت کا یہ طوق اتارنے کی کوئی زحمت گوارا نہیں کرتا۔ ان کے ہزاروں شاگردوں نے بھی ضرور یہ تماشا دیکھا ہوگا اور اللہ کا شکر ادا کیا ہوگا کہ ہم نے استاد بننے کی ذلت نہیں اٹھائی۔