گورنر راج کا قصہ تمام مگر؟؟

177

سند ھ میں گورنر راج لگے یا نہ لگے قانون کو اپنی عمل داری کے لیے راستہ درکار ہے۔ اس وقت عالم یہ ہے کہ سندھ کی حکومت، بیوروکریسی اور انتظامیہ کی بنیاد پر قانون کی عمل داری کی راہ روکے ہوئے ہے مگر ۔۔۔؟۔ گورنر راج اس پہلو کا انتہائی اور نا پسندیدہ قدم ہوتا۔ یہ افواہ کہاں سے چلی اور کون اسے اُڑاتا رہا؟، یہ معلوم نہ ہو سکا۔ وفاق اور اس سے متعلقہ افراد گورنر راج کے نفاذ کی تردید کرتے رہے۔ سندھ حکومت اور پیپلزپارٹی بھی گورنر راج کی افواہوں کے خلاف تلواریں سونت کر ٹی وی اسٹوڈیوز کے میدان میں اتری تھی مگر وہ بھی اس بات کا واضح اظہار کرنے سے قاصر تھی کہ کس نے گورنر راج کا پیغام دیا ہے۔ اس کے باوجود ٹی وی اسٹوڈیوز میں اس موضوع پر زوردار بحث کا سلسلہ جاری رہا۔ بھلا ہو چیف جسٹس ثاقب نثار کا جنہوں نے کم ازکم وفاق اور سندھ کی اس کھینچا تانی میں گورنر راج کے آپشن کو مکھن سے بال کی طرح نکال باہر کیا۔ انہوں نے وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کو طلب کرکے کہا کہ گورنر راج لگا تو ایک منٹ میں ختم کر دیں گے۔ کسی کو جے آئی ٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر سندھ حکومت کو گرانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ گورنر راج کی حد تک ’’تین سال والے‘‘ پیپلزپارٹی کی مدد کو آئے اور انہوں نے اس آپشن کا امکان ہی ختم کر دیا۔
ابھی چند دن قبل آصف زرداری عدلیہ اور فوج کو تین سال والے قرار دے کر دوسرے لفظوں میں خود کو یا اپنی کلاس کو تاحیات قرار دے رہے تھے۔ پاکستان کی سیاست میں تاحیات اور ناگزیریت کے خبط نے بہت سی غلطیوں اور حماقتوں کو جنم دیا ہے۔ اس زعم نے بہت سے غلط فیصلے کروا کر بار ہا سیاست کو بندگلی میں پہنچایا ہے۔ جوابدہی اور حساب کتاب پر تین سال والے اور تاحیات کے طعنے اور جملے پاکستان کے سیاست کو صحت مندانہ بنیاد پر استوار ہونے میں بڑی رکاوٹ رہے ہیں۔ عدالت کی طرف سے گورنر راج کا باب بند کرنے کے بعد قانون ابھی بے بسی کی تصویر ہے۔ سندھ میں جرم وسزا کی بلاؤں کا صندوق کھلا ہے اور بلائیں داستانوں اور کہانیوں کی صورت ایک ایک کرکے باہر آرہی ہیں۔ ان بلاؤں کی باز پرس قانون کا اختیار اور حق ہے مگر سندھ حکومت عدم تعاون کی راہ پرچل رہی ہے شاید اسی عدم تعاون کو تعاون میں بدلنے کے لیے گورنر راج کی افواہ چلا دی گئی تھی۔ یہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو ہلہ شیری دینے کا ایک انداز ہو سکتا تھا۔ مفاہمت کے بادشاہ کہلانے والے آصف زرداری اس وقت سندھ میں جلسوں جلوسوں میں مگن ہیں۔ بے نامی اکاؤنٹس کے حوالے سے عدالت کی قائم کردہ مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد ان کے لہجے کی تلخی بڑھتی جا رہی ہے۔ رپورٹ کیا ہے یہ تو تحیر وتجسس اور سنسنی خیزی سے بھرپورکسی جاسوسی ناول کا کوئی باب ہے، ہالی ووڈ کی کسی فلم کا اسکرپٹ ہے۔ اب یہ عدالت پر منحصر ہے کہ وہ اس متحیر کردینے والی رپورٹ کو تسلیم کرتی ہے یا نہیں؟ اگر یہ سب واقعی ہوچکا ہے تو اس شخص کی ذہانت قابلِ رشک ہے جس نے مال بنانے کے یہ سب طریقے اور انداز ایجاد کیے ہیں۔ کاش یہ ذہانت پاکستان کے مسائل حل کرنے کے کام آئی ہوتی تو شاید ملک کہیں سے کہیں پہنچ گیا ہوتا۔
آصف زرداری سندھ میں ایک نئی سیاسی صف بندی میں مصروف ہیں تاکہ ان کی گرفتاری کی صورت میں سندھ میں احتجاجی سیاست کا آغاز ہو سکے۔ آصف زرداری کا اندرون سندھ کا یہ سفر، شعلہ بیانی اور اشاروں اور کنایوں میں طنزیہ باتوں کے لحاظ سے نوازشریف کی نااہلی کے بعد جی ٹی روڈ کے سفر سے قطعی مطابقت رکھتا ہے۔ آصف زرداری مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے مندرجات پر بات نہیں کرتے ان کا انداز اشاروں کنایوں میں پیغام پہنچانے جیسا ہے۔ اگر یہ ہوا تو یہ ہو سکتا ہے اور یوں ہوا تو یوں ہو سکتا ہے۔ وہ اب سندھ کے احساس محرومی کی بات بھی کرنے لگے ہیں اور یہ وہی سندھ ہے جس میں ان کی جماعت دس سال سے سیاہ وسفید کی مالک ومختار ہے۔ آصف زرداری اب مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب بند کرنے کی بات بھی کر رہے ہیں۔ یہ سیدھے سبھاؤ ’’سندھ کارڈ ‘‘ ہے۔ یہ ایک متروک سکہ ہے جو ماضی میں تو استعمال ہوتا رہا مگر اب سیاست کی حرکیات بڑی حد تک تبدیل ہو چکی ہیں۔ سیاست سے نظریات کا عنصر غائب ہو چکا ہے اور اقتصادیات کا عنصر غالب آچکا ہے۔ کرپشن کا دفاع اس لیے نہیں کیا جا سکتا کہ پاس پڑوس میں بھی یہ کام ہور ہا ہے۔ ہر شخص اپنے اعمال اور کردار کا جواب دہ ہے۔ ہر شخص کو اپنا حساب کتاب ٹھیک رکھنا ہوتا ہے۔ ’’صرف ہمارا ہی احتساب کیوں‘‘ قطعی غیر صحت مندانہ سوچ ہے۔ کہیں سے آغاز تو ہونا ہی ہوتا ہے ہاں اگر احتساب کا عمل اچانک کہیں پہنچ کر رک جائے تو پھر وقت اس کے مصنوعی اور جانبدار ہونے کا فیصلہ دینے میں لمحوں کی تاخیر نہیں کرے گا مگر ابھی تو شروعات ہیں۔ بڑے اسکینڈلز کو بھگتانے کے بعد اس احتساب کا نقارہ ہر بدعنوان کے گھر اور گلی میں بجنا چاہیے۔ کسی کو یہ موقع نہیں ملنا چاہیے کہ وہ احتساب کو یک طرفہ اور انتقام قرار دے مگر یہ کہنا کہ ہمارا ہی احتساب کیوں؟ ایک غلط رویہ ہے۔ سیاست دانوں کا رویہ ’’ہمارے ساتھ ساتھ دوسروں کا احتساب بھی کیجیے‘‘۔ ہونا چاہیے اور دوسروں کا احتساب ہونا بھی چاہیے یہی پاکستان میں نئی طرز سیاست کی بنیاد بن سکتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے لیے شکر کا پہلو تو یہ ہے سندھ گورنر راج سے بچ گیا اور قانون ہی اس عمل کی راہ میں دیوار بن گیا مگر سندھ میں قانون کو آگے بڑھنے اور اپنی علمداری کے لیے راستہ درکار ہے۔ مراد علی شاہ اور ان کا آئینی اختیار یہ راستہ تادیر نہیں روک سکتے۔