قرضوں کے معاہدے سامنے لائے جائیں

160

سرکار کے سارے ہی وزیر باتدبیر ایک ہی بات تواتر سے دہرارہے ہیں کہ پاکستانی معیشت بس اب بہتر ہونے والی ہے ۔ ان تمام بیانات سے قطع نظر عملی صورت حال دیکھیں تو ایک بھی اشاریہ ایسا نہیں ہے جو ان بیانات کی تصدیق کرتا ہو۔ زرمبادلہ کے ذخائر مسلسل تنزل کی طرف ہیں ، توازن ادائیگی کا خسارہ بڑھتا ہی جارہا ہے ، ہر کچھ دن کے بعد ایک نیا ٹیکس عائد کردیا جاتا ہے ، ہر ماہ منی بجٹ کا اعلان معمول میں داخل ہوچکا ہے ، روپے کی ڈالر کے مقابلے میں بے قدری ہے کہ رکنے میں نہیں آرہی ہے ۔ موجودہ دور حکومت میں ہی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 110روپے سے کم ہو کر 144 روپے تک پہنچ چکی ہے ۔ بجلی ، گیس، ایندھن کون سی چیز ہے جس کے نرخ منجمد ہی ہوگئے ہوں ۔ ہاں قرض کا انبار ہے کہ اس میں روز اضافہ ہوجاتا ہے ۔ اگر سرکار کے نزدیک قرض کی رقم معیشت کی بحالی کی طرف اشارہ ہے تو ضرور سمجھا جاسکتا ہے کہ پاکستانی معیشت بہتری کی طرف مائل ہے ۔ اب پھر وزیر خزانہ اسد عمر نے اسی طرح کی کئی خوشخبریاں سنائی ہیں ۔ پہلی خوشخبری یہ دی ہے کہ سعودی عرب پاکستان میں سب سے بڑی سرمایہ کاری کرنے والا ہے ۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ سعودی عرب تو یہ سرمایہ کاری کرنے کے لیے انتہائی مشتاق ہے بس یہ دیر پاکستان ہی طرف سے ہے ۔ وفاقی کابینہ کے آئندہ اجلاس میں مذکورہ سرمایہ کاری کی باضابطہ منظوری دے دی جائے گی جس کے بعد اس کا اعلان کردیا جائے گا ۔ بدھ ہی کے اخبارات میں اسی قبیل کی ایک اور خبر ہے کہ چین پاکستان کو دو ارب ڈالر قرض دے گا۔ اس خبر میں بتایا گیا ہے کہ یہ قرض 8 فیصد سود پر دیا جائے گا۔ ان تمام قرضہ جات کا ایک پراسرار پہلو یہ ہے کہ صاف اور واضح طور پر یہ نہیں بتایا جاتا کہ پاکستان ان تمام قرضہ جات پر کتنے فیصد سود کی ادائیگی کرے گا۔ مثلا سی پیک کے لیے دیے گئے چینی قرضوں کے بارے میں بھی شروع میں یہی بتایا گیا تھا کہ اس پر 8 فیصد کی شرح سے سود دینا ہوگا ۔ یہ تو بعد میں پتا چلا کہ ان قرضہ جات پر 7 فیصد انشورنس پریمیم بھی ہے ۔ اس کے علاوہ مزید چھپی ہوئی ادائیگیاں بھی ہیں ۔ ایک تو سالانہ 8 فیصد شرح سود ہی انتہائی زیادہ ہے ۔ عالمی سطح پر عموما یہ 4 فیصد تک ہوتا ہے اور پھر جب یہ قرض حکومت پاکستان لے رہی ہے تو انشورنس پریمیم اور دیگر ادائیگیاں کیوں ؟ ایک اور سادہ سا سوال یہ ہے کہ جب ابھی روز مرہ کے اخراجات کے لیے رقم موجود نہیں ہے تو پھر اتنی بھاری شرح سود کے ساتھ کس طرح ادائیگی ممکن ہوگی ۔ حکومت کو چاہیے کہ پچھلے قرضوں کے معاہدے بھی عوام کے سامنے لائے اور موجودہ حکومت کے دور میں حاصل کیے گئے قرضوں کے معاہدے بھی سامنے لائے ۔ یہ بھی جاننا عوام کا حق ہے کہ ان تمام قرضہ جات کے لیے کیا کچھ گروی رکھا گیا ہے اور خدا نخواستہ اگر پاکستان نادہندہ ہوتا ہے تو قرض خواہ ان معاہدوں کے تحت کیا کچھ کرنے کے مجاز ہیں ۔ یہ انتہائی اہم سوال ہے جس پر پارلیمنٹ اور سیاسی پارٹیوں کو حکومت سے جواب طلب کرنا چاہیے ۔