مولانا طارق جمیل اور سیاست

646

معروف عالم دین مولانا طارق جمیل نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے بعد ویڈیو پیغام جاری کیا ہے۔ پیغام میں مولانا نے کہا کہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے سلسلے میں قوم عمران خان کا ساتھ دے۔ پاکستان میں عمران خان پہلے وزیراعظم ہیں جو اسلامی پاکستان چاہتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں کسی (حکمران) نے مدینہ کی ریاست کے متعلق نہیں سوچا۔ عمران خان واحد لیڈر ہیں جنہوں نے یہ نظریہ پیش کیا۔ انہوں نے پوری قوم سے کہا کہ وہ موجودہ حکومت کی مدد بھی کرے اور اس سے تعاون بھی کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں دینی فریضہ سمجھ کر عمران خان کا ساتھ دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بشریٰ بی بی پہلی خاتون اوّل ہیں جو باپردہ ہیں۔ (روزنامہ دنیا۔ کراچی۔ 15 دسمبر 2018ء)
اسلام دین اور سیاست کی یکجائی اور سیاست پر دین کی بالادستی کا قائل ہے اور اسلام میں سیاسی جدوجہد دین کو ’’قائم‘‘ کرنے کا ایک بہت ہی بڑا تقاضا ہے۔ چناں چہ اسلام کی فکری تاریخ میں ہر بڑے مفکر اور مجدد نے سیاست کو دین کے تابع قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں امام غزالی کا یہی موقف ہے۔ ابن خلدون کا یہی اصرار ہے۔ مجدد الف ثانی کی یہی سنت ہے۔ الماوردی کا یہی کہنا ہے۔ اقبال نے یہی فرمایا ہے اور سید ابوالااعلیٰ مودودیؒ کی پوری زندگی یہی کام کرتے ہوئے بسر ہوگئی۔ بدقسمتی سے علما کے ایک طبقے نے دین اور سیاست کو الگ کیا ہوا ہے اور تبلیغی جماعت اپنی پوری تاریخ میں سیاست سے اجتناب کرتی آئی ہے مگر خدا کا شکر ہے کہ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے کے مصداق مولانا طارق جمیل نے نہ صرف یہ کہ دین اور سیاست کی یکجائی کے تصور کو تسلیم کرلیا ہے بلکہ انہوں نے ریاست مدینہ کے حوالے سے اس امر کی نشاندہی بھی کردی ہے کہ پاکستان کو ریاست مدینہ کے نمونے کا مصداق ہونا چاہیے۔
مولانا طارق جمیل صرف عالم دین ہی نہیں ہیں بلکہ وہ مقرر بھی بہت عمدہ ہیں۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ مولانا کو کروڑوں سامعین میسر ہیں۔ انہوں نے جب سے ٹیلی وژن پر آنا شروع کیا ہے ان کے دائرہ اثر میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ کے مصداق ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا کی آواز کو مزید کروڑوں افراد تک پہنچائے اور ان کے ذریعے دین کی محبت کو مزید عام کردے۔ لیکن ہم مولانا کی تقریریں سنتے ہیں تو ہمیں خیال آتا ہے کہ مولانا انبیا اور خود رسول اکرمؐ کی سنت کے مطابق یہ تو بتاتے ہیں کہ حق کیا ہے مگر وہ یہ نہیں بتاتے کہ ان کے زمانے کا باطل کون ہے، حالاں کہ ہر نبی نے اپنے زمانے کے باطل کی نشاندہی کی ہے۔ سیدنا ابراہیمؑ نے نمرود کو باطل ٹھیرایا اور اس کو چیلنج کیا۔ سیدنا موسیٰؑ نے فرعون کو حکم الٰہی کے تحت باطل قرار دیا اور اسے چیلنج کیا اور حضور اکرمؐ نے ابوجہل، ابولہب اور دیگر سردار ان مکہ کو باطل باور کرایا اور انہیں چیلنج کیا۔ انبیا کی سنت کے مطابق ہمارے مجددین نے بھی باطل کی مزاحمت کی۔ غزالی نے یونانی فکر کی مزاحمت کی اور اسے رد کیا۔ مجدد الف ثانی نے جہانگیر کی خلاف اسلام روش کو چیلنج کیا۔ اقبال اور مولانا مودودی نے سرمایہ داری اور سوشلزم کو باطل قرار دے کر ان کا رد لکھا اور مولانا مودودی نے عملاً ان دونوں باطل نظاموں کی مزاحمت کی۔ مگر مولانا طارق جمیل کی تقاریر سنتے ہوئے خیال آتا ہے کہ ہماری دنیا میں کوئی باطل طاقت ہے نہ باطل نظریات کا کوئی وجود ہے۔ اسی طرح مولانا طارق جمیل اپنی تقاریر میں امرباالمعروف کا فرض ادا کرتے ہوئے تو نظر آتے ہیں مگر نہی عن المنکر کا ان کی تقاریر میں نام و نشان ہوتا ہے نہ منکر کو پھیلانے والوں کا کوئی تذکرہ ہوتا ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ ہر بچہ اپنی فطرت یعنی اسلام پر پیدا ہوتا ہے مگر اس کے والدین اسے عیسائی، یہودی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ماحول کا جبر بہت بڑی طاقت ہے اور ماحول کے جبر کے خلاف جہاد ہر زمانے کا بنیادی تقاضا ہے مگر مولانا طارق جمیل کی تقاریر سنتے ہوئے خیال آتا ہے کہ پاکستان سمیت دنیا میں نہ کہیں ماحول کا جبر ہے اور نہ یہ جبر مسلمانوں کے عقاید، ان کی روحانیت، ان کی اخلاقیات اور ان کی تہذیب پر کوئی منفی اثرات مرتب کررہا ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ انہیں عمران خان کے حوالے سے ہی سہی یہ خیال تو آیا کہ پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرح ہونا چاہیے۔ مگر مولانا کبھی اس بات پر بھی تو اظہار خیال فرمائیں کہ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والا پاکستان 71 سال سے اسلامی کیوں نہیں بن سکا۔ آخر کوئی تو اس کا ذمے دار ہوگا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ مولانا طارق جمیل کبھی قوم کو یہ بھی بتائیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو آج تک کس کس نے اسلامی نہیں بننے دیا؟۔ جیسا کہ ظاہر ہے اس امر کی نشاندہی بجائے خود اسلام کا ایک تقاضا ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ سچ بولو اور ’’تاریخی سچ‘‘ کو سامنے لانا اہل علم کی بنیادی ذمے داری ہے۔ بالخصوص علما کی۔
مولانا کا یہ مشورہ بالکل درست ہے کہ پوری قوم پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے سلسلے میں عمران خان کی مدد کرے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک خود عمران خان بھی اس سلسلے میں اپنی مدد کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ کبھی کسی قادیانی کو اپنا مشیر بنالیتے ہیں، کبھی انہیں توہین رسالت کی مرتکب آسیہ ملعونہ کو رہا کرنا پڑجاتا ہے، کبھی ان کی جماعت قومی اسمبلی میں شراب پر پابندی کے بل کی مخالف بن کر کھڑی ہوجاتی ہے اور کبھی عمران خان کو اچانک خیال آجاتا ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی ملک کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان میں سے کون سی بات ایسی ہے جس سے اندازہ کیا جاسکے کہ عمران خان پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرح بنانا چاہتے ہیں۔ اتفاق سے عمران خان نے اسلام آباد میں خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے جو تقریب برپا کی اس سے مولانا طارق جمیل نے بھی خطاب کیا۔ خدا کا شکر ہے کہ مولانا طارق جمیل نے خاندانی منصوبہ بندی کے سلسلے میں جسٹس ثاقب نثار اور عمران خان کی گمراہ کن فکر کی تائید نہیں فرمائیں مگر اصولی اعتبار سے مولانا طارق جمیل کو ایسے اجتماع میں جانا ہی نہیں چاہیے تھا جو اسلام کی روح کو کچلنے کے لیے منعقد کیا گیا تھا۔ خیر مولانا وہاں چلے ہی گئے تھے تو ایک عالم کی حیثیت سے ان کا فرض تھا کہ وہ بتاتے کہ خاندانی منصوبہ بندی کے تصور کا اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ یہ ایک مغربی تصور ہے مگر مولانا نے اس مرحلے پر حق گوئی سے گریز کیا اور مداہنت سے کام لیا جو کسی طرح بھی کسی عالم، علما دین کے شایان شان نہیں اس لیے کہ انبیا کے وارث ہیں اور نبی کے کسی وارث کے لیے یہ زیبا نہیں کہ اسلام کو دبایا یا چھپایا جارہا ہو تو وہ خاموش رہے۔ چوں کہ علما انبیا کے وارث ہیں اس لیے ان کو رخصت کی راہ پر نہیں عزیمت کی راہ پر چلنا ہوتا ہے۔ رخصت کی راہ عام لوگوں کے لیے ہوتی ہے لیکن جب علما خود رخصت کی راہ پر چلنے لگتے ہیں تو عوام پھر رخصت کی راہ چھوڑ کر ضلالت کی راہ اختیار کرلیتے ہیں۔
مولانا نے بالکل درست فرمایا ہے کہ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پہلی خاتون اوّل ہیں جو باپردہ ہیں۔ یہ واقعتاً اہم بات ہے مگر ایک جانب وزیراعظم کے گھر میں ایک باپردہ خاتون موجود ہے اور دوسری جانب وزیر اعظم کے پاکستان کے ٹیلی وژن کی اسکرین پر صبح سے شام تک ایسے مناظر چھائے رہتے ہیں جن کے سلسلے میں عریانی و فحاشی کی اصطلاح ناکافی محسوس ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بیچاری قوم بشریٰ بی بی کے پردے کی خوشی منائے یا عریانی و فحاشی کے سیلاب بلا خیز کا ماتم کرے؟۔
مولانا طارق جمیل کو یقینامعلوم ہوگا کہ ریاست مدینہ کا تصور اصولی اعتبار سے جماعت اسلامی کا تصور ہے۔ اس لیے کہ مولانا مودودی کی فکر میں حکومت الٰہیہ کا تصور موجود ہے۔ خود جماعت اسلامی کے دستور اور انتخابی منشور میں بھی ریاست مدینہ کا تصور موجود ہے۔ مگر ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ مولانا نے کبھی جماعت اسلامی کو اس بات پر داد دی ہو کہ وہ عہد حاضر میں پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے پر یقین رکھتی ہے۔ مگر عمران نے صرف نعرے کی سطح پر ریاست مدینہ کی بات کی ہے اور مولانا نے اسے سرعام سراہا ہے۔ ہمیں اس بات پر رتی برابر بھی اعتراض نہیں مگر اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ریاست مدینہ کی داد کے حوالے سے اقتدار کی اہمیت بنیادی ہے۔ جماعت اسلامی بیچاری کبھی اقتدار میں نہیں آئی اور عمران خان اقتدار میں ہیں۔ خیر مولانا نے عمران خان کو ریاست مدینہ کے توسط سے تعریف کا مستحق سمجھا ہے تو اب ان کا فرض ہے کہ وہ اس بات کو آگے بڑھائیں۔ بہتر ہے کہ وہ پی ٹی آئی میں شامل ہوجائیں۔ یہ ممکن نہ ہو تو کئی مذہبی جماعتیں سیاست میں ہیں۔ مولانا ان میں سے کسی جماعت کا حصہ بن جائیں۔ یہ بھی ممکن نہ ہو تو وہ اپنی الگ جماعت بنالیں۔ یہ تجویز بھی قابل عمل نہ ہو تو مولانا پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے حوالے سے عمران خان پر دباؤ بڑھائیں۔ یہاں دباؤ سے مراد اخلاقی دباؤ ہے۔ مولانا کا اثر لاکھوں لوگوں پر ہے۔ مولانا اخلاقی دباؤ تخلیق کریں گے تو عمران خان کو کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ اور کچھ نہیں تو ان کا باطن آشکار ہوجائے گا۔
ریاست ہمیشہ ہی اہم رہی ہے مگر ہمارے زمانے تک آتے آتے وہ تقریباً خدا بن بیٹھی ہے۔ معاشرے کی ساری طاقت ریاست کے ہاتھ میں آگئی ہے۔ چناں چہ ریاست کو مشرف بہ اسلام کرنا زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے۔ برصغیر کی ملت اسلامیہ نے قائد اعظم کی قیادت میں اسلام کے نام پر پاکستان بنایا مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے اسلام سے غداری کی اور آدھا پاکستان ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔ اس بچے کھچے پاکستان کی بقا و سلامتی بھی اسلام سے ہماری وفاداری کے ساتھ منسلک ہے۔ معاشرے کے بالائی طبقات اسلام کے ساتھ مزید کھیلیں گے تو کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔