فوج اور کاروبار

192

عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے کہا ہے کہ فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت ہے، کاروبار کرنا نہیں۔ کیا ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنانا فوج کا کام ہے؟ کس ملک کی فوج یہ کررہی ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب منفی اور مثبت دونوں طرح سے مل سکتا ہے۔ جن ممالک میں بار بار فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا ہو وہاں فوج کی دلچسپی سرحدوں کی حفاظت پر نہیں بلکہ اپنے کاروبار پر رہی ہے اور اب بھی ایسی مثالیں موجود ہیں۔ بلاشبہ کسی بھی ملک کی فوج سب سے بڑی منظم اور مسلح جماعت ہوتی ہے چنانچہ اقتدار پر قبضے کی صورت میں اسے اپنے مالی تحفظ کا معاملہ درپیش ہوتا ہے۔ فوجی آمروں کو یہ خدشہ تو لاحق رہتا ہے کہ کسی بھی وقت اقتدار چھوڑنا پڑے گا چنانچہ آمروں کا ٹولا نہ صرف خود جائداد بناتا ہے بلکہ اپنے مخصوص حلقے کو بھی کاروبار میں لگا دیا جاتا ہے تاکہ کوئی اعتراض نہ کرے۔ پاکستان میں بھی کئی بار فوج اقتدار میں آچکی ہے اور نہیں آئی تو بھی پس پردہ کئی معاملات اپنے ہاتھ میں رکھے۔ آج بھی جنرل پرویز مشرف فرماتے ہیں کہ پاکستان میں کسی تیسری قوت کی ضرورت ہے۔ اور ظاہر ہے کہ تیسری قوت سے ان کا اشارہ اپنی یا فوج کی طرف ہوتا ہے۔ خود تو اتنے بیمار ہیں کہ رقص بھی نہیں کر رہے۔ لیکن جہاں تک کاروبار کرنے کا تعلق ہے تو یہ پابندی صرف فوج پر نہیں بلکہ حکومت میں آنے والے تمام افراد پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں اس کی مثالیں موجود ہیں کہ حکومت میں آنے کے بعد کاروبار ترک کردیا گیا۔ یہاں کچھ لوگوں نے اقتدار اس لیے حاصل کیا کہ اپنے کاروبار کو مستحکم کیا جائے۔ چنانچہ صرف فوج ہی کاروبار میں ملوث نہیں ہے لیکن فوج کا کاروبار سول حکمرانوں اور اداروں سے زیادہ خطرناک ہے۔ چیف جسٹس کے مطابق یہ لوگ شہدا اور بیواؤں کو ڈھال بنا کر رائلٹی لیتے اور کاروبار چلاتے ہیں۔ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کا نام لے کر اربوں روپے اکٹھے کیے گئے جن کے بارے میں ہزاروں شکایات عدلیہ کو موصول ہوئی ہیں۔ دفاعی اداروں کے نام پر جو سوسائٹیاں قائم کی گئی ہیں ان سے عوام دھوکے میں آگئے کہ یہ فوج کی ہیں اور ان کا سرمایہ محفوظ رہے گا۔ ایسا ہی ایک نام بحریہ ٹاؤن ہے گو کہ اس کے بارے میں بحریہ لاتعلقی کا اظہار کرچکی ہے لیکن اس میں بہت دیر ہو گئی ہے۔ اب بحریہ ٹاؤن کے کرتا دھرتا ملک ریاض سے باز پرس ہو رہی ہے اور یہ خبریں بھی سامنے آ چکی ہیں کہ ملک ریاض نے کئی ریٹائرڈ فوجی افسران کو ملازم رکھا تاکہ معاملات کرنے میں آسانی ہو۔ سول حکومتوں نے بھی ریاض ملک کو بے تحاشا رعایتیں دیں۔ فوج کے کاروبار کے بارے میں کئی برس پہلے عائشہ صدیقہ پوری کتاب تحریر کرچکی ہیں جس کی رونمائی مشکل ہوگئی تھی۔ دیکھا جائے تو پاکستان کی فوج ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہی نہیں بنا رہی بلکہ متعدد کاروبار چلا رہی ہے۔ جب کسی ملک کی فوج کاروبار دنیا میں ملوث ہو جاتی ہے تو وہ سرحدوں کے دفاع سے غافل ہو جاتی ہے بلکہ اس سے بڑھ کر دنیا داری میں پڑ کر حوصلے کھو بیٹھتی ہے۔ الحمدللہ، پاک فوج میں یہ نوبت نہیں آئی کیونکہ اسلام سے تعلق کی بنا پر جہادی جذبے زندہ ہیں۔ چیف جسٹس صاحب نے کاروبار کے بارے میں جو کچھ کہا ہے اس کا جواب فوجی ترجمان نے دیا تو ہے لیکن چیف جسٹس کی بات اپنی جگہ ہے۔