تعطیل نہیں اسباق بحال کیے جائیں

236

حکومت سندھ نے صوبے کے اسکولوں میں تعلیمی کیلنڈر کے حوالے سے اہم فیصلے کیے ہیں ۔ اسٹیرنگ کمیٹی کے ان فیصلوں میں پہلی مرتبہ یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ چند عام تعطیلات میں بھی اسکول کھلے رہیں گے اور طلبہ اسکول پہنچیں گے ۔ ان میںیوم کشمیر ، عاشورہ، 12 ربیع الاول ، یوم آزادی پاکستان، قائد اعظم کا یوم وفات اور شاہ لطیف کے عرس پر ہونے والی تعطیلات شامل ہیں ۔ حکومت سندھ کی جانب سے اس فیصلے کے دفاع میں پیش کیا جانے والا جواز دیکھا جائے تو کچھ سمجھ میں نہ آنے والی صورتحال ہے ۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ان دنوں میں طلبہ کو اسکولوں میں ان ایام کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں گی ۔ عاشورہ اور 12 ربیع الاول کے مواقع پر کئی کئی دن شہر پہلے ہی کرفیو زدہ ہوتا ہے اور عام شہریوں کی آمد و رفت معطل ہوکر رہ جاتی ہے ۔ ایسے میں اسکول کیسے کھل سکتے ہیں اور ان میں بچے کیوں کر پہنچیں گے ، یہ تو صوبائی وزیر تعلیم سید سردار علی ہی بہتر بتا سکیں گے ۔ یوم وفات قائد اعظم پر حکومت پاکستان اور سندھ حکومت دونوں ہی چھٹی ختم کرچکی ہیں تو اب کیسے اس چھٹی کو دوبارہ سے منسوخ کیا جا سکتا ہے ۔ یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا ۔ اہم بات یہ ہے کہ اگر سید سردار علی شاہ صاحب کے اس جواز کو درست مان لیا جائے کہ منسوخ کی جانے والی چھٹیوں میں ان اہم دنوں کے بارے میں طلبہ کو آگاہ کیا جائے گا تو یہی کام 25 دسمبر، 27 دسمبر، یکم مئی وغیرہ وغیرہ پر کیوں نہیں ۔ دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت طلبہ کو پاکستان کی تاریخ سے دور کیا جارہا ہے اور اس کے لیے شعوری کوششیں کی جارہی ہیں ۔ اس کا اندازہ نصاب میں ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھ کر کیا جاسکتا ہے ۔ پہلے یوم اقبال اور یوم وفات قائد اعظم اور یوم لیاقت علی خان کے مواقع پر چھٹیاں منسوخ کی گئیں ۔ مگر یکم مئی کی چھٹی برقرار ہے ۔ بے نظیر بھٹو کے جاں بحق ہونے کے دن 27 دسمبر کی چھٹی کا اضافہ کردیا گیا ہے ۔ اسی طرح تعلیمی کیلنڈر کے ساتھ روز ایک نیا کھیل ہوتا ہے۔ بہ مشکل سندھ میں تعلیمی سال کا آغاز یکم اگست سے ہونا قرار پایا تھا کیوں کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں بچے نہ تو تفریح کرپاتے ہیں اور نہ ہی پڑھ پاتے ہیں۔ جب دو ماہ کے بعد وہ اسکول آتے ہیں تو گرمیوں کی چھٹیوں کے کام کے نام پر ان کے ساتھ ایک بھاری بھرکم پلندہ ہوتا ہے جو انہوں نے اپنے والدین یا بڑے بہن بھائیوں کی مدد سے مکمل کیا ہوتا ہے اور ذہنی طور پر وہ کورے ہوتے ہیں ۔ تاہم پرائیویٹ اسکول مافیا کی تحریص اور دباؤ پر ایم کیو ایم سے ہی تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر تعلیم شجاعت علی بیگ نے بلا کسی ٹھوس دلیل کے اس فیصلے کو تبدیل کردیا تھا ۔ اب دوبارہ سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ نیا تعلیمی سال گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد سے شروع ہوگا ۔کہا گیا ہے کہ نقل کی روک تھام کے لیے امتحانات کھلے میدانوں میں لیے جائیں گے ۔ اپریل کی گرمی کا تصور کریں اور کھلے میدان میں امتحان لینے کے سندھ حکومت کے ظالمانہ فیصلے کو دیکھیں تو ماتم ہی کرنے کو دل چاہتا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت اپنی نااہلی کا اعتراف کرتی کہ نقل کی روک تھام اسکول انتظامیہ کی ذمہ داری ہے ۔ اس سلسلے میں اسکول انتظامیہ کو تحفظ فراہم کیا جاتا اور انہیں مناسب تربیت فراہم کی جاتی ، معصوم بچوں پر ظلم کا پہاڑ توڑنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے ۔ بہتر ہے کہ سندھ حکومت اس طرح کے احمقانہ فیصلے کرنے کے بجائے بہتر نصاب کی تدوین ، اسکولوں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنانے اور اسکولوں کی عمارتوں کو اوطاق سے دوبارہ تدریس کے لیے استعمال کرنے پر توجہ دے ۔ اگر بچوں کو اہم لوگوں اور اہم ایام کے بارے میں تعلیم اور آگہی دینی ہے تو ان کے اسباق نصاب میں بحال کریں۔ یہ نمائشی اقدامات نہ کیے جائیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سندھ ہی نہیں پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں میں چھٹیاں بہت زیادہ ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ تدریسی ایام کے مقابلے میں چھٹیاں زیادہ ہیں اور اس پر مستزاد کبھی اساتذہ غائب ہوگئے اور کبھی طالب علم نے کسی بہانے چھٹی کرلی۔ تاہم مذکورہ اجلاس میں جن چھٹیوں کے خاتمے کا اعلان کیا گیا ہے اس پر ایک نیا تنازع کھڑا ہوگا۔ خاص طور پر یوم عاشور اور 12 ربیع الاول کی چھٹیاں ختم کرنے پر۔ یہ فیصلہ اہل تشیع تسلیم کریں گے نہ اہل سنت بلکہ عین ممکن ہے کہ اسے دینی معاملات میں مداخلت قرار دے دیا جائے۔ جہاں تک کشمیر کے حوالے سے پاکستان میں یوم یکجہتی منایا جاتا ہے تو یہ چھٹی کئی برس سے پورے پاکستان میں جاری ہے اور اس کا مقصد اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کرنا ہے۔ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اس دن لوگ محض چھٹی مناتے ہیں یا کچھ جلسے اور تقاریر ہو جاتی ہیں جس کا فائدہ جبر کا شکار کشمیریوں کو کم ہی ہوتا ہے لیکن انہیں یہ تقویت ضروری ہوتی ہے کہ اہل پاکستان ان کے دکھ درد میں شریک ہیں۔