ایک عدالت طاقتور سے خوفزدہ ہے؟

274

عدالت عظمیٰ نے احکامات کے باوجود تجاوزات نہ ہٹانے پر آئی ایس آئی سے جواب طلب کیا ہے ۔ جمعرات کو ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے جنرل فیض کو کہا تھا کہ سڑک خالی کی جائے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سی ڈی اے کے جواب کے مطابق اب تک حکم پر عملدرآمد نہیں کیا گیا ہے ۔ یہ قول کہ قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں کمزور پھنس جاتا ہے اور طاقتور آسانی سے نکل آتا ہے ، پاکستان میں مکمل طور پر صادق آتا ہے ۔ یہ پہلی مرتبہ کی بات نہیں ہے کہ عدالت نے طاقتور حلقوں کو کوئی ہدایت جاری کی ہو اور اسے نظراندازکردیا گیا ہو۔ کراچی میں 4 دسمبر 2018 کو جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کی کراچی رجسٹری میں شہر میں تجاوزات اور قبضوں کے حوالے سے اہم اجلاس ہوا تھا جس میں جسٹس گلزار احمد نے ملٹری کو دی گئی زمینوں پر شادی ہالوں اور دیگر تجارتی سرگرمیوں کو خلاف قانون قرار دیتے ہوئے ان کے فوری خاتمے کا حکم دیا تھا ۔ سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ دفاعی مقاصد کے لیے دی گئی زمینوں کا تجارتی استعمال خلاف قانون ہے ۔ اس ہدایت کو پورا ایک ماہ ہوگیا ہے مگر ایسے تمام شادی ہال، مال اور فوڈ آؤٹ لیٹ اُسی طرح جاری و ساری ہیں ۔ ان کے سرپرستوں کے کان پر جوں بھی نہیں رینگی ۔ ان اداروں کی سرکشی کا تو یہ عالم ہے کہ تفریحی مقاصد کے لیے دیے گئے پرانی سبزی منڈی پر قائم عسکری پارک میں شادی ہال میں روز تقریبات جاری ہیں ۔اور پارک بند پڑا ہے۔ حالانکہ اسی طرح کی زمین وائی ایم سی اے گراؤنڈ اور دیگر پارکوں پر قائم شادی ہال ختم کردیے گئے ہیں ۔ پی ای سی ایچ ایس میں واقع یونین کلب میں قائم شادی لانوں کو مسمار کردیا گیا ہے ۔ پارکوں میں قائم شادی ہال کے منیجروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے احکامات کے باوجود شادیوں کی بکنگ کیوں کی گئی مگر دفاعی مقاصد کے لیے دی گئی زمینوں کے تجارتی استعمال پر عدالت عظمیٰ کے واضح احکامات کے باوجود اس طرف کوئی کارروائی نہیں ۔ یہ سب کچھ واضح کررہا ہے کہ پاکستان میں دو واضح طبقات ہیں ۔ ایک طبقہ وہ ہے جس پر پاکستان کا کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا اور ایک طبقہ وہ ہے جس کا کوئی والی وارث نہیں ۔ اسے عدالت بھی روز ڈانٹ ڈپٹ کرتی ہے ، دھمکی بھی دیتی ہے اور پابند سلاسل بھی کردیتی ہے ۔کیا عدالت طاقتور سے خوفزدہ ہے؟ ناانصافی پر مبنی ایسے معاشرے بہت طویل عرصے تک زندہ نہیں رہتے اور ان پر جلد ہی کوئی اور قوم غالب آجاتی ہے ۔ ہادی برحق حضرت محمد ﷺ نے اس بیماری سے پہلے ہی مطلع کردیا تھا ۔ جب بااثر خاندان کی رکن کی چوری پر سفارشیں آئیں تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہو گئے کہ اگر ان میں سے کوئی معزز شخص چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے لیکن اگر کوئی کمزور چوری کر لیتا تو اس پر حد قائم کرتے اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کر ے تو میں اس کا ہاتھ کاٹوں گا۔ مدینہ کی ریاست میں اس کلیہ پر عمل کرلیا جائے تو معاشرے میں پھیلتی ہوئی بے چینی پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔