جاڑے کی من مانی اور دُھند کی حشر سامانی

207

موسمی کیلنڈر کے مطابق سرما کا آغاز وسط اکتوبر سے ہوجاتا ہے۔ دن میں اگرچہ سورج آگ برساتا ہے اور اکتوبر کی دھوپ آدمی چند منٹ کے لیے بھی برداشت نہیں کرپاتا لیکن راتیں ٹھنڈی ہوجاتی ہیں اور رات کے آخری پہر کھیس اوڑھے بغیر گزارہ نہیں ہوتا، پھر اکتوبر کے آخری عشرے میں بارش ہوجائے اور پہاڑوں پر ہلکی پھلکی برفباری بھی تو موسم کے تیور بدل جاتے ہیں اور سردی باقاعدہ ڈنکے کی چوٹ پر منادی کرکے آن موجود ہوتی ہے، سردی سے مخلوق خدا کا رومانس چھپائے نہیں چھپتا۔ بچے ہوں، بوڑھے یا جوان سبھی اس موسم کا جشن مناتے اور کام و دہن کی لذتوں سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ نہاری، پائے اور حلیم تو پاکستانی سارا سال کھاتے اور ڈکارتے ہیں لیکن دراصل یہ سردی کے خاص کھابے ہیں اور سردی جوبن پر ہو تو یہ کھانے خوب لطف دیتے ہیں اور ہاں تلی ہوئی مچھلی بھی اس موسم میں خاص مزا دیتی ہے۔ گاجر اور ماش کی دال کا حلوہ اور پستے بادام والی کشمیری چائے بھی سردی کی خاص سوغات ہے۔ موسم سرما یوں تو اکتوبر سے مارچ تک پورے چھ مہینے مخلوق خدا کی مہمان نوازی کرتا ہے لیکن ہمارے دانشور دوست کہتے ہیں کہ رومان انگیز سردی کا دورانیہ دو ڈھائی ماہ سے زیادہ نہیں ہوتا۔ دسمبر کے وسط میں دو تین دن تک لگاتار بادل گرجتے برستے رہیں، پہاڑوں پر مسلسل برفباری ہوتی رہے اور سورج بادلوں کی اوٹ سے جھانک کر پھر چھپ جائے تو جاڑا پورے جاہ و جلال کے ساتھ میدانی اور نیم پہاڑی علاقوں میں آن دھمکتا ہے اور سردی شرماتی سجاتی اس کی آغوش میں جا چھپتی ہے۔ سردی میں نسائیت ہے ایک دلنواری اور دل ربائی ہے۔ بچے، بوڑھے، جوان سبھی اس کی محبت سے لطف اٹھاتے ہیں لیکن جاڑے میں مردانہ رعب اور دبدبہ ہے یہ آتا ہے تو بدن کانپنے اور ہاتھ لرزنے لگتا ہے۔ پاؤں اتنے ٹھنڈے ہوجاتے ہیں کہ موٹے اونی موزے پہننے کے باوجود ٹھنڈ نہیں جاتی اور تو اور سورج بھی جاڑے کے آگے بھیگی بلی بن جاتا ہے، وہ جو گرمیوں میں آگ برساتا ہے جاڑے میں ایک ایسی انگیٹھی کا روپ دھار لیتا ہے جو آسمان پر کہیں دور رکھی ہو اور اس کی تپش زمین تک نہ پہنچ پارہی ہو۔ سورج آسمان دنیا پر نکلتا ضرور ہے لیکن اس کی دھوپ اتنی کمزور اور بے کیف ہوتی ہے کہ بدن سے کپکپاہٹ نہیں جاتی۔ اس پہ طرۂ یہ کہ ذرا سا بادل کا ٹکڑا آیا اور سورج کو نہ چھپانے کا بہانہ کر گیا اب آپ کے لیے چھت پر بیٹھنا دشوار ہوگیا، برف میں ڈوبی ہوا آپ کو کمرے میں پناہ لینے پر مجبور کردیتی ہے، کمرے میں ہیٹر نہ ہو تو برف خانہ محسوس ہوتا ہے، ہیٹر سے یاد آیا کہ ان دنوں گیس کی غیر علانیہ لوڈشیڈنگ زوروں پر ہے حکومت کہہ رہی ہے کہ گیس کی لوڈشیڈنگ نہیں ہورہی البتہ گیس کا پریشر اتنا کم ہے کہ وہ گھروں تک پہنچ ہی نہیں پارہی۔ خیر ہمیں اس سے غرض نہیں کہ لوڈشیڈنگ ہورہی ہے یا نہیں ہم تو یہ جانتے ہیں کہ گھروں میں چولہے اور ہیٹر ٹھنڈے پڑے ہیں اور ہم جاڑے میں ٹھٹھر رہے ہیں اور ارباب اختیار سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ
کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں
ہمارے دوست کہتے ہیں کہ عمران حکومت نے اور کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو قوم میں صبر کی طاقت ضرور پیدا کردی ہے اس طاقت میں جتنا اضافہ ہوگا اتنا ہی اس کی مشکلیں آسان ہوتی جائیں گی۔ بقول شاعر
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں
جاڑے کے ساتھ دھند بھی اپنی حشرسامانی دکھا رہی ہے۔ گزشتہ سال اپر پنجاب کو دھند اور دھوئیں کے آمیزے سے سابقہ پیش آیا تھا جسے انگریزی میں اسموگ (Smoge) کا نام دیا گیا تھا، اردو میں بھی اس اصطلاح کو قبول کرلیا گیا۔ اس زہریلی دھند کی اذیت خاص طور پر اہل پنجاب نے خوب برداشت کی اور اس کے نتیجے میں انہیں آنکھ، ناک اور گلے کی بیماریوں کا سامنا رہا۔ اس سال اگرچہ اسموگ نے پاکستان کا رُخ نہیں کیا لیکن دھند نے حشر اٹھا رکھا ہے۔ پنجاب بالخصوص اور پورا ملک بالعموم دھند کے نرغے میں ہے۔ یہ دھند ایسی ہے کہ سورج بھی دس بجے سے پہلے اپنا چہرہ نہیں دکھا پاتا۔ صبح کے وقت حد نگاہ صفر ہو کر رہ گئی ہے یعنی سڑک پر چلنے والی گاڑیاں ہیڈ لائٹس کے باوجود ایک دوسرے کو قریب سے بھی نہیں دیکھ پاتیں۔ یوں حادثات بڑھ گئے ہیں اور اب تک دو درجن سے زیادہ انسانی جانیں دھند کی نظر ہوچکی ہیں۔ یہ تو ہے موسمی دھند کا حال، مطلعِ سیاست پر چھائی ہوئی دھند نے قوم کو اور پریشان کر رکھا ہے۔ میاں نواز شریف منی ٹریل نہ دینے کے ایک اور کیس میں جیل چلے گئے ہیں۔ ایون فیلڈ کیس میں انہیں دس سال قید اور جائداد ضبطی کی سزا ہوئی تھی لیکن عدالت نے انہیں ضمانت پر رہا کردیا تھا اب العزیزیہ کیس میں انہیں سات سال قید، جرمانہ اور جائداد کی ضبطی کی سزا ہوئی ہے وہ اس وقت کوٹ
لکھپت جیل لاہور میں پنجاب حکومت کے مہمان ہیں۔ ان کے وکلا کی ٹیم پھر عدالت میں ضمانت کی اپیل دائر کرنے والی ہے لیکن کہا جارہا ہے کہ شاید اس دفعہ ضمانت کی اپیل کارگر نہ ہوسکے۔ دوسری طرف جعلی اکاؤنٹس کیس میں آصف زرداری اور ان کے ٹولے کے گرد شکنجا کسا جاچکا ہے اور کسی وقت ان کی گرفتاری متوقع ہے۔ ان کے خلاف قائم کردہ جے آئی ٹی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زرداری اور ان کے ٹولے نے سندھ کو اپنا مفتوحہ علاقہ سمجھ کر بُری طرح لوٹا ہے ان کے خلاف کیس اتنا مضبوط ہے کہ وہ کسی طرح نہیں بچ سکتے۔ زرداری ٹولے کے بعد اب انگلیاں تحریک انصاف کے بدعنوانوں کی طرف اُٹھ رہی ہیں کہ آخر ان کا کب احتساب ہوگا۔ وزیراعظم کے مشیر زلفی بخاری کے حق میں عدالت کا فیصلہ بھی لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کررہا ہے۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ اگر عمران خان اپنے تمام حریفوں کو آؤٹ کرنے کے باوجود قوم کو کچھ ڈیلیور نہ کرسکے اور قوم کا مستقبل بدستور دُھند میں لپٹا رہا تو پھر کیا ہوگا؟۔ صاحب اس سوال کا جواب ہمارے ذمے نہیں۔ ہماری تو فی الحال جاڑے نے مَت مار رکھی ہے اور ہم مٹھی بھر دھوپ کو ترس رہے ہیں۔ محکمہ موسمیات کے مطابق ایک دو روز میں بارشوں کا نیا سلسلہ شروع ہونے والا ہے پھر تو جاڑے کی من مانی اپنی انتہا کو پہنچ جائے گی۔