اٹھارویں ترمیم پر عدالتی تلوار

379

آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم اب تک متنازع ہے جس کے ذریعے صوبوں کو اختیارات دیے گئے تھے ۔ اب اس ترمیم پر عدالت عظمیٰ کی تلوار بھی لٹک گئی ہے ۔ چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے گزشتہ جمعرات کو ایک مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ18 ویں ترمیم پر پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہوئی جب کہ دنیا بھر میں آئینی ترمیم سے پہلے بحث کی جاتی ہے لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوا اور بغیر کسی بحث مباحثے کے ترمیم منظورکر لی گئی ۔ اس ترمیم کے ذریعے کئی ایسے حقوق صوبوں کومنتقل کیے گئے جوپہلے وفاق کے پاس تھے ۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کے رہنما اور وکیل رضا ربانی نے اعتراف کیا کہ یہ درست ہے کہ18ویں ترمیم پر پارلیمان میں سیر حاصل بحث نہیں ہوئی تاہم ترمیم کا مسودہ تیار کرنے میں 9 ماہ لگے ۔18 ویں ترمیم پیپلز پارٹی کی حکومت کا کارنامہ ہے اور سابق صدر آصف علی زرداری اب تک اسے اپنا طرہ امتیاز قرار دیتے ہیں ۔ سندھ حکومت ان خدشات کا اظہار کر رہی ہے کہ وفاق اس آئینی ترمیم کو ختم کرنا چاہتا ہے تاہم عدالت عظمیٰ یہ ترمیم ختم نہیں کر سکتی جو پارلیمان نے منظور کی ہے ، بھلے اس پر مناسب بحث نہ ہوئی ہو ۔ یہ کوتاہی اس وقت کے ارکان پارلیمان کی ہے جو کان دبا کر بیٹھے رہے ۔ حزب اختلاف نے بھی کوئی احتجاج کیا نہ بحث کامطالبہ کیا ۔ اب عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ ہم اس ترمیم کو واپس پارلیمان میں تو نہیں بھیج سکتے لیکن اس قانون کی تشریح کرنا عدالت کا کام ہے ۔ اصولی بات یہی ہے کہ عدالت قانون سازی نہیں کر سکتی لیکن کسی بھی قانون کی تشریح کرنا عدالت کا کام ہے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن کے مطابق قانون کی تشریح وہ ہے جو عدالت عظمیٰ کرے گی ۔ اگر پارلیمان کوئی قانون منظور کر لے تو اس کا اطلاق ہو جاتا ہے کیونکہ جمہوری حکومتوں میں پارلیمان بالا دست ہوتی ہے ۔ البتہ پاکستان کے آئین کے مطابق پارلیمان بھی اکثریت کی بنیاد پر اسلامی احکامات اور قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی نہیں کر سکتی ۔ اس رہنما اصول کے مطابق عدالت عظمیٰ کو سود کے خلاف بھی کوئی فیصلہ کر دینا چاہیے ۔