ملکی معاشی سرگرمیوں میں، معیشت کا پہیہ چلانے میں، غربت اور بیروزگاری کم کرنے میں اور امن و خوشحالی لانے میں نجی شعبے کا کردار مسلم ہے۔ نجی شعبے کا مطلب ہے عوام کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اشیا و خدمات کی فراہمی منافع کے حصول کے ساتھ کی جائے، اس میں ملٹی نیشنل کمپنیاں اور قومی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ فیملی بزنس بھی ہے اور چھوٹے پیمانے پر لوگوں کا ذاتی کاروبار بھی نجی شعبے میں آتا ہے تو دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ ایک طرف یہ تمام چھوٹے بڑے کاروباری ادارے منافع کے لیے کام کرتے ہیں دوسری طرف ان ہی اداروں کی وجہ سے عوام کے لیے اپنی ضروریات زندگی پورا کرنا ممکن ہوتا ہے۔ مثلاً آج پاکستان میں کئی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیاں کام کررہی ہیں اور منافع حاصل کررہی ہیں لیکن دوسری طرف ان کمپنیوں کے باعث آپ باآسانی اپنے موبائل سے SMS، واٹس ایپ یا کال کے ذریعے دوسروں سے رابطہ کرسکتے ہیں، تیسری طرف ان کمپنیوں کے کام کرنے کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کو روزگار ملا ہوا ہے۔ اگر آپ اپنے گھر کے در و دیوار پر نظر ڈالیں، کچن اور باتھ روم کا چکر لگائیں تو بجلی کے آلات سے لے کر باتھ روم فٹنگ تک موبائل فون، فرنیچر، ادویات اور گارمنٹس کسی نہ کسی نجی شعبے سے تعلق رکھنے والی کمپنی کی پروڈکٹ ہوں گی۔
لیکن یہ کاروباری لوگ جنہیں آپ سرمایہ دار بھی کہہ سکتے ہیں وہ کاروبار کے معاملے میں بڑے حساس ہوتے ہیں وہ ملک کے معاشی، سیاسی، معاشرتی نظام اور امن وامان پر بڑی نظر رکھتے ہیں اور وجہ اس کی یہ ہے کہ اگر وہ آج کوئی کاروبار کرنے کا ارادہ کریں تو زمین لینے، بلڈنگ تعمیر کرنے، مشنری نصب کرنے، ملازمین کا انتظام کرنے اور مال مارکیٹ میں لانے تک ڈیڑھ دو سال لگ جاتے ہیں اور اس دوران میں ان کا پیسہ مسلسل خرچ ہوتا رہتا ہے۔ اس لیے نجی شعبے کو متحرک رکھنے کے لیے سیاسی استحکام، امن وامان کا قیام، قانون کی بالادستی، پیداواری لاگت میں کمی اور آسان قرضوں کی فراہمی جیسے حالات بہت ضروری ہیں۔ دنیا کے تمام ہی ممالک میں پالیسی ساز ادارے اور حکومتی اعلیٰ حکام ان حالات کو بہتر بنانے کے لیے پالیسیاں بناتے ہیں اور کہیں تھوڑا بہت عدم استحکام آئے تو اسے کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے بیانات سے ایسا کوئی تاثر نہیں دیتے کہ حالات غیر یقینی کی طرف جارہے ہیں۔
اگر پاکستان کے سیاسی و معاشی منظرنامے کو دیکھیں تو پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کو گرانے کا اعلان کررہی ہے جب کہ وفاقی حکومت سندھ حکومت کو بدلنے کی فکر میں ہے۔ شرح سود 10 فی صد ہونے کی وجہ سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ایکسچینج ریٹ کے بارے میں ابھی تک قیاس آرائیاں جاری ہیں جب کہ روپے کی قدر میں تقریباً 35 فی صد کمی ہوچکی ہے۔ بجلی اور گیس کے نرخ بڑھ چکے ہیں، مزید بڑھانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ حکومت عوام کو منی بجٹ کی خوشخبریاں سنا رہی ہے، مہنگائی کی شرح 7.5 سے 8 فی صد تک ہونے کا خدشہ ہے۔ نیب، ایف بی آر اور ایف آئی اے اپنے اپنے شکار کی تلاش میں کاروباری لوگوں پر حملہ آور ہورہے ہیں۔ رہی سہی کسر تجاوزات کے خاتمے کی آڑ میں جمے جمائے کاروبار ختم کرنے سے پوری ہوگئی ہے، صرف کراچی میں 60 ہزار کاروبار یا دکانیں ختم کیے جاچکے ہیں، اس سے بیروزگاری اور غربت میں کتنا اضافہ ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
ہر سال 20 لاکھ نوجوان تعلیم سے فارغ ہو کر جاب مارکیٹ میں آجاتے ہیں، ان تمام لوگوں کو ملازمت کی فراہمی کے لیے معاشی نمو کو 6 سے 7 فی صد تک جانا ضروری ہے جب کہ خبریں یہ ہیں کہ یہ شرح رواں سال 3 سے 4 فی صد تک رہے گی، اس کا مطلب یہ ہے کہ بیروزگاری میں مزید اضافہ ہوگا۔ معاشی و سیاسی غیر یقینی کے باعث پاکستان اسٹاک مارکیٹ کا انڈیکس تقریباً 3 ہزار پوائنٹس گر چکا ہے۔ تعمیراتی شعبہ جو بڑی تعداد میں ملازمتیں فراہم کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ 30 سے 35 منسلک شعبے بھی چلتے ہیں وہ سب سست روی کا شکار ہیں۔ حکومت خوشخبری سنا رہی ہے کہ ملک میں 300 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آنے والی ہے لیکن واضح بات یہ ہے کہ مقامی سرمایہ کار اگر کاروبار کے لیے آگے نہیں بڑھے گا تو بیرونی سرمایہ کار کیسے یہاں آئے گا۔ اس سارے شور شرابے میں 50 لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریوں کا معاملہ تو پتا نہیں کہاں گم ہوگیا ہے کچھ معلوم نہیں آنے والے دنوں میں عوام کو کیا کیا کھونا پڑے گا۔