نا تجربہ کاری یا حماقتیں

192

عمران خان کی حکومت اور وزراء کے بارے میں خود تحریک انصاف کے ایک رہ نما نے ٹی وی چینل پر اعتراف کیا ہے کہ ہم لوگ ابھی سیاست سیکھ رہے ہیں چنانچہ غلطیاں ہو رہی ہیں۔ اس پر سیاست میں نو آموز بلاول زرداری نے طنز کیا تھا کہ جنہوں نے حکومت دی ہے وہ انہیں کچھ سکھا کر تو بھیجتے۔ یہ الگ بحث ہے کہ نوجوان بلاول نے اپنے گھر ہی سے بہت سے نادر طریقے سیکھ لیے، انہیں کہیں اور جانے اور سیکھنے کی ضرورت نہیں۔ ان کے والد آصف علی زرداری تو نواز شریف کو بھی سبق سکھانے کی دعوت دیتے تھے۔ بہرحال عمران خان کے وزراء اپنی ناتجربہ کاری میں خود پارٹی اور حکومت کے لیے بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ تازہ ترین معاملہ تحریک انصاف حکومت کے مشیر تجارت ڈاکٹر فرخ سلیم کا سامنے آیا ہے جس نے حکومت کی معاشی پالیسی پر تنقید کی تو کہا جارہا ہے کہ وہ تو حکومت کے مشیر ہی نہیں اور جو کچھ کہا ہے وہ ان کی ذاتی رائے ہے۔ اس تردید نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے کیونکہ تمام سرکاری ذرائع ابلاغ ڈاکٹر فرخ سلیم کو سرکاری مشیر قرار دے رہے تھے۔۔۔ پاکستان ٹیلی ویژن، ریڈیو پاکستان اور سرکاری خبر ایجنسی اے پی پی انہیں تجارتی شعبے میں حکومت کا مشیر کہہ رہے تھے۔ خود وہ کابینہ کے اجلاس میں عمران خان کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ اگر ان کے پاس کوئی سرکاری منصب نہیں تھا تو وہ کابینہ کے اجلاس میں کیوں شریک ہوئے۔ ایسے کئی سوالات ہیں جن کا جواب فی الوقت حکمرانوں کے پاس نہیں ہے۔ جتنے بھی بڑ بولے وزراء ہیں وہ آئیں، بائیں، شائیں کر رہے ہیں اور حزب اختلاف کو تنقید کرنے کا ایک اور موقع حکومت نے فراہم کردیا ہے چنانچہ ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگ زیب نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت اعلانیہ اور غیر اعلانیہ اپنے تمام مشیروں کو سامنے لائے ورنہ کل کسی اور مشیر یا وزیر کے بارے میں کہہ دیا جائے گا کہ اس کا تو نوٹیفکیشن ہی جاری نہیں ہوا۔ فرخ سلیم کے بارے میں یہی کہا گیا ہے۔ مریم اورنگ زیب نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ فرخ سلیم کے بارے میں جھوٹ بولنے والے بھاگ جائیں گے اور کہیں گے ہمارا تو نوٹیفکیشن ہی جاری نہیں ہوا تھا۔ اس مبالغہ آرائی سے قطع نظر یہ مطالبہ تو بجا ہے کہ حکومت کے تمام وزراء اور مشیروں کے بارے میں سرکاری اعلامیہ جاری کیا جائے ورنہ فرخ سلیم جیسا معاملہ پھر پیش آسکتا ہے۔ اس وقت وفاقی حکومت میں 41 وزیر و مشیر ہیں جب کہ تحریک انصاف ن لیگ کی حکومت پر تنقید کرتی تھی کہ 30، 30 وزیر بھرتی کر رکھے ہیں۔ فرخ سلیم اگر حکومت پر یہ تنقید نہ کرتے کہ وہ معاشی خرابیوں کو دور کرنے کے بجائے مرض کو دبا رہی ہے تو شاید وہ آج بھی سرکار کے قابل قدر مشیر ہوتے۔ انہوں نے یہ نشاندہی بھی کی تھی کہ روپے کی قدر گرانے کے باوجود برآمدات میں اضافہ نہیں ہوا جو لمحہ فکر ہے۔ اپنے ہی لوگوں کی تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ ہونا چاہیے اور جن خرابیوں کی نشاندہی کی جائے ان کو دور کرنے کی کوشش ہونی چاہیے ورنہ معاملات سنبھل نہیں سکیں گے۔ یاد رہے کہ مشیر تجارت کی کمیٹی ڈیسکون کو مہمند ڈیم کا ٹھیکا دیے جانے کا معاملہ بھی گلے کی ہڈی بن سکتا ہے جو اگلے بنے نہ نگلے۔