ٹرمپ کی خواہشِ ملاقات 

174

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن ڈی سی میں کابینہ کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پاکستان کی نئی قیادت کے ساتھ جلد ملاقات کے خواہش مند ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں مگر وہ دشمن کو اپنے گھر میں پناہ دیتے ہیں یہ سب ہم برداشت نہیں کر سکتے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جہاں پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا وہیں انہوں نے بھارت کے افغانستان میں کردار کو بھی تنقید ہی نہیں طنز واستہزا کا نشانہ بھی بنایا۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ مودی نے کئی بار مجھ سے افغانستان میں لائبریری بنانے کی بات کی آخر جنگ زدہ ملک میں یہ کس کام آئے گی۔ بھارت آخر طالبان کے خلاف افغان حکومت کی عملی مدد کیوں نہیں کرتا۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ بھارت سمیت روس اور پاکستان افغانستان میں طالبان کے خلاف لڑنے میں اپنا کر دار ادا کریں۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری کی طرف سے صدر ٹرمپ کی پاکستانی قیادت سے ملاقات کی خواہش کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ کے اس بدلے ہوئے لہجے میں اس کی افغانستان میں درپیش مشکلات ہیں۔ ابھی صدر ٹرمپ کی ملاقات کی خواہش محض ایک خواہش ہے اور امریکا کی طرف سے اس کا باضابطہ اعلان ہی صورت حال کو واضح کرے گا مگر اس خواہش سے پہلے امریکا اور پاکستان کے درمیان تلخ اور تیز جملوں کا ایک پورا دور اور مقابلہ گزر چکا ہے۔ ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد ایک ٹویٹ میں پاکستان کے خلاف سخت زبان استعمال کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے امداد کے بدلے جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اس وقت پاکستان کی طرف سے اس الزام کا نرم لہجے ہی میں جواب دیاگیا تھا مگر اس کے بعد بھی دونوں ملکوں میں شکوہ اور جواب شکوہ چلتا رہا۔ یہاں تک ٹرمپ کی طرف سے ایک امریکی نیوز چینل کو دیے گئے انٹرویو میں پاکستان پر لگائے گئے الزامات کا وزیر اعظم عمران خان نے بہت سخت انداز اور الفاظ میں جواب دیا۔ جس پر سیاسی مبصرین نے حیر ت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کو بھی پاکستان کے اس بدلے ہوئے لہجے پر حیرت ضرور ہو ئی ہوگی۔ امریکا نے اس تلخی کے اثرات محسوس کرکے زخموں پر پھاہا رکھنے کی کوشش بھی کی تھی۔ اب ٹرمپ نے اچانک اپنی پاکستان پالیسی میں یوٹرن لیتے ہوئے پاکستان کی قیادت سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ شمالی کوریا کے معاملے بھی ایک بڑا یوٹرن لیتے ہوئے کورین لیڈر سے ہاتھ ملا چکے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان اور شمالی کوریا دونوں خطے میں چین کے قریبی اور با اعتماد دوست ہیں۔ چند روز قبل ٹرمپ نے چین کے ساتھ بھی محصولات کے تنازعے کو خوش اسلوبی سے حل ہونے کی بات کی تھی۔
پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش کے ساتھ ہی افغانستان میں بھارت کے کردار پر تنقید خاصی حیرت کا باعث ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکا نے افغانستان پر فوج کشی کر کے جس ملک کے لیے افغانستان کے دروازے کھول دیے وہ بھارت تھا۔ امریکا کا خیال تھا کہ پاکستان اس مسئلے میں ایک درد سر جبکہ بھارت مسئلے کا حل ثابت ہوگا مگر پنڈت چانکیہ کے اصولوں کا پیروکار بھارت افغانوں سے براہ راست لڑائی مول لینے کی جرات نہ کر سکا۔ بھارت نے افغانستان میں اپنے لیے ایک پوشیدہ رول پسند کیا جس کا مقصد بھی صرف افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا تھا۔ بھارت نے امریکا، ناٹو اور ایساف کے ساتھ اپنی فوج کو بھیجنے سے انکار کیا اور متعدد مواقع پر کہا وہ کبھی بھی زمین پر لڑنے کے لیے اپنی فوج افغانستان نہیں بھیجے گا۔ اس کے باجود امریکی افغانستان میں بھارت کے کردار کے معترف رہے۔ سڑکیں اور عمارتیں تعمیر کرنے سے زیادہ ضروری امن تھا۔ اب بھارت کے اسی کردار کو ٹرمپ نے بھی طنز کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ زدہ ملک میں لائبریری بنانے کی کیا ضرورت ہے؟۔ جس کے جواب میں بھارتی ذرائع نے افغانستان میں اپنی تعمیراتی خدمات اور میگا پروجیکٹس کی پوری تفصیل بیان کی ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ مسٹر ٹرمپ اپنے تزویراتی شراکت دار کی افغانستان میں ان خدمات سے بے خبر ہوں مگر وہ بھارت کے کردار کو ناکافی قرار دینا اور اس پر عدم اطمینان کا اظہار کرنا چاہتے تھے۔ ٹرمپ اور عمران خان میں ملاقات کب ہوتی ہے؟ اس کے لیے وقت کا تعین ہونا باقی ہے۔ جب بھی ہو پاکستان کو امریکا کے ساتھ دوٹوک لب ولہجہ اختیا کرنا چاہیے۔ امریکا نے کشمیر میں اپنا کردار مثبت انداز میں ادا نہیں کیا۔ امریکا نے بین الاقوامی فورموں پر بھارت کی ہاں میں ہاں ملا کر اس مسئلے کی سنجیدگی اور پیچیدگی کو بڑھایا ہے۔ اب اگر افغانستان میں اپنا اُلجھا دامن جنگ کے کانٹوں سے چھڑانے کے لیے امریکا کو پاکستان کی ضرورت آن پڑی ہے تو پاکستان کو بھی امریکا سے جواباً مسئلہ کشمیر کے حل میں مثبت اور فعال کردار کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ اس بار پاکستان کو مفت میں اپنا کندھا پیش نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ پاکستانی قیادت کو یہ سبق مل چکا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں کچھ بھی مفت نہیں ہوتا اور مفت میں ملنے والوں کی قدر کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ انہیں سو جوتے بھی کھانے پڑتے ہیں اور سو پیاز بھی۔ نائن الیون کے بعد سے پاکستان یہی سبق پڑھ رہا ہے۔