سیاسی گرو۔۔۔؟

98

امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے عادل اعظم پاکستان سے اپیل کی ہے کہ شراب کی حمایت کرنے والوں کے خلاف سوموٹو ایکشن لیں، کیوں کہ شراب پر پابندی کا بل پیش ہونے کے موقع پر قومی اسمبلی سے واک آؤٹ کرنے کے بعد یہ لوگ اسمبلی میں بیٹھنے کے اہل نہیں رہے۔ انہوں نے نہ صرف آئین پاکستان سے انحراف کیا ہے بلکہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات سے بھی روگردانی کی ہے۔ سینیٹر سراج الحق کی رائے سے اختلاف ممکن نہیں کہ واک آؤٹ کرنے والے ارکان اسمبلی پر آئین کی دفعہ 62-63 کا اطلاق ہونا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ شراب پر پابندی کے بل کی مخالفت کرنے والوں پر ہی 62-63 کا اطلاق کیوں؟ اس کی زد میں تو تحریک انصاف کی حکومت بھی آتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ پاکستان کو مدینے کی ریاست بنائیں گے، مدینے کی ریاست میں شراب پر پابندی کا بل پیش نہیں کیا گیا تھا بلکہ گلی کوچوں میں شراب بہادی گئی تھی مگر عمران خان کی حکومت گلی کوچوں میں شراب خانوں کے لائسنس جاری کررہی ہے جو دین اسلام ہی کی نہیں ریاست مدینہ کی بھی توہین ہے۔
دوستوں کی محفل میں قائد اعظم کے حوالے سے گفتگو ہورہی تھی ایک بزرگ نے کہا قائد اعظم کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ انہوں نے ہمیں آزادی کی نعت سے سرفراز کیا، اگر پاکستان معرض وجود میں نہ آتا تو ہم انگریزوں کی غلامی سے نکل کر ہندوؤں کے غلام ہوجاتے۔ ایک نوجوان نے کہا: اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم ایک آزاد ملک میں پیدا ہوئے ہیں سو، آزادی ہمارا مقسوم ٹھیری لیکن۔۔۔ لیکن کیا؟؟؟ بزرگ نے سوال کیا۔ لیکن یہ کہ ہمیں خودسری اور سرکشی کی آزادی ملی ہے، ہم جب چاہیں جہاں چاہیں دھرنا دے سکتے ہیں، راستے بند کرکے راہ گیروں کا ناطقہ بند کرسکتے ہیں، جو چاہیں بول سکتے ہیں۔ تم کہنا کیا چاہتے ہو؟ بزرگ نے وضاحت چاہی۔ ہمارے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر جس بے رحمی سے مخالفین کی کردار کشی کی جاتی ہے، مہذب ممالک میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کو سیاسی گرو کہا جاتا ہے، شیخ رشید کے خیال میں زرداری ایک ایسی سیاسی یونیورسٹی ہے جو سیاست میں پی ایچ ڈی کراتی ہے۔ زرداری صاحب نے سینیٹ کے انتخابات میں بلوچستان کے ایک عام سیاست دان کو چیئرمین منتخب کراکے بہت نام کمایا مگر صدر مملکت کے انتخاب میں اعتزاز احسن کو صدارت کے عہدے کے لیے نامزد کرکے کوئی سیاسی چمتکار نہ دکھا سکے۔ مسلم لیگ نے تو کمال ہی کردیا، رشتہ مانگنے والے ہی کو دلہا بنادیا۔ حالاں کہ مولانا فضل الرحمن کے والد محترم نے پاکستان کو گناہ قرار دیا تھا، میاں نواز شریف کی حکومت نے ان کے نام یادگاری ٹکٹ جاری کردیا۔ مولانا فضل الرحمن نے الیکشن میں ہارنے کے بعد یوم آزادی ہی کو گناہ قرار دے ڈالا۔ اعتزاز احسن بھی بڑے سنگین الزامات کے حصار میں ہیں جنہیں موصوف ضلع حصار سمجھتے ہیں۔
یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ وطن عزیز میں سیاست بھی اسکرپٹ کے مطابق کی جاتی ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انڈوپاک کی جنگیں بھی اسکرپٹ کے مطابق لڑی گئی ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت جو کچھ کررہی ہے وہ بھی اسکرپٹ کے مطابق ہے سو، وزیراعظم عمران خان سے کسی تبدیلی کی توقع بحث ہے۔ یہ کیسی کم نصیبی ہے کہ وطن عزیز میں کوئی ایسا سیاست دان موجود نہیں جو کرپشن کی دلدل میں دھنسا ہوا نہ ہو۔ عمران خان اس دلدل سے دور تھے وہ کرپٹ سیاستدانوں کا احتساب کرسکتے تھے ان کی یہی خوبی ان کی اہلیت بن گئی، مگر ان کے کاندھے پر اقتدار کی بندوق رکھنے والے بھول گئے کہ اناڑی سپاہی تھری ناٹ تھری کی بندوق چلائے تو اس کا کندھا زخمی ہوجاتا ہے۔ عمران خان کے کاندھے پر بھی تھری ناٹ تھری کی بندوق رکھ دی گئی ہے، اگر یہ بندوق قوم کے کاندھے پر رکھی جاتی تو بہتر نتائج کا حصول ممکن ہوسکتا تھا۔