کل آئیے گا

149

مسز طارق غصے سے کھول اٹھیں۔ عرفان ابھی تک ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر پہلے ہی انہوں نے عرفان کو ٹی وی چھوڑ کر ہوم ورک کرنے کا کہا تھا لیکن یہ آج کل کے بچے ماں باپ کی کب سنتے ہیں۔ ان کے اندر کی غصہ ور استانی جاگ اٹھی۔ ان کا دل چاہا کہ وہ عرفان کے دو ہاتھ لگائیں لیکن ٹیچرز ٹریننگ آڑے آئی۔ وہ ایسا نہ کرسکیں۔ اس غفلت پر عرفان کی سخت سرزنش ضروری ہے، لیکن انہیں یاد آیا کہ ڈانٹنے ڈپٹنے سے بچے کی نفسیات پر برا اثر پڑتا ہے۔ اُف کیا وقت آگیا ہے اپنے بچے کو بھی انسان مار سکتا ہے اور نہ ڈانٹ سکتا ہے۔ اپنے غصے پر بمشکل قابو پاکر وہ عرفان کے پاس گئیں۔ عرفان کو ذرا احساس تھا اور نہ ڈر کہ اس نے ماما کی حکم عدولی کی ہے۔ ماما کو دیکھ کر وہ چیخا ’’ماما دیکھیں ٹام کروز کی فلم آرہی ہے‘‘۔ مسز طارق نے ٹی وی پر نظر کی۔ ایک نیم عریاں سی فلم آرہی تھی جو عرفان کے لیے قطعاً موزوں نہ تھی۔ ان کی تیوریوں پر بل پڑگئے۔ ان کا دل چاہا کہ وہ کم از کم اس بات پر عرفان کو ضرور ڈانٹیں لیکن وہ اس بات پر بھی اسے نہ ڈانٹ سکیں۔ وہ آگے بڑھیں اور قدرے سخت لہجے میں کہا ’’عرفان اٹھو اور ہوم ورک کرو۔ یہ تمہارے ہوم ورک کا ٹائم ہے‘‘۔ ’’ماما بس تھوڑی دیر، فلم ختم ہونے والی ہے‘‘۔ ’’نہیں، بس، اٹھو اور ہوم ورک کرو‘‘۔ انہوں نے سختی سے کہا اور ٹی وی بند کردیا۔ عرفان نے ناراضی سے چیخنا چاہا لیکن ماما کے چہرے پر نظر پڑتے ہی وہ اس ارادے سے باز آگیا۔
مسز طارق تھوڑی دیر بعد عرفان کے پاس آئیں تو وہ تندہی سے ہوم ورک کررہا تھا۔ وہ خاموشی سے عرفان کے برابر والی کرسی پر بیٹھ گئیں۔ عرفان بدستور کام کرتا رہا اس نے ماما کی طرف نظر اٹھاکر بھی نہیں دیکھا۔ فلم ادھوری چھوڑنے پر وہ ماما سے ناراض تھا۔ عرفان کو محنت سے کام کرتا دیکھ کر مسز طارق کا دل محبت سے معمور ہوگیا۔ وہ اپنے بیٹے کے مستقبل میں زندگی گزار رہی تھیں۔ عرفان کی تعلیمی سرگرمیاں ان کے لیے مسرت کا باعث تھیں۔ وہ چاہتی تھیں اسے اپنے بازؤں میں لے کر خوب پیار کریں۔ آہستگی اور نرمی سے انہوں نے اس کے ہوم ورک میں ہاتھ بٹانا شروع کردیا۔ عرفان میتھ کے سوالوں میں شدید غلطیاں کررہا تھا۔ ان کے ہونٹ بھنچ گئے لیکن ہمدردانہ محبت سے انہوں نے اسے سمجھانا شروع کردیا۔ ہوم ورک ختم ہوگیا تو انہوں نے پیار سے عرفان کو تھپ تھپایا۔ وہ اپنے بیٹے کی تعلیمی قابلیت سے مطمئن نہیں تھیں۔ اس کی تعلیم کے حوالے سے وہ متفکر اور پریشان تھیں۔ وہ تھوڑی دیر عرفان سے ادھر اُدھر کی باتیں کرتی رہیں پھر آہستگی سے انہوں نے باتوں کا رخ عرفان کی تعلیم کی طرف موڑ دیا۔ وہ عرفان کو زندگی میں علم سے ربط پیدا کرنے اور اس ربط کی اہمیت باور کرانا چاہتی تھیں۔ ’’بیٹا دنیا بچوں سے کہہ رہی ہے تم اپنے آپ کو علم کے زیور سے آراستہ کرلوتمہاری محنت کے صلے میں میں تمہارے مستقبل کو خوشیوں سے بھردوں گی۔‘‘ جیسے ہی سانس لینے کے لیے وہ رکی عرفان جلدی سے بولا ’’ماما اب میں ٹی وی دیکھ لوں؟‘‘۔ ’’اُف‘‘ انہوں نے سوچا ان بچوں کو پیدا کرنا کتنا مشکل ہے لیکن اس سے مشکل انہیں تعلیم یا فتہ بنانا ہے۔
رات کو بستر پر طارق سے بھی وہ عرفان کی تعلیم پر بات کرتی رہیں۔ طارق ایک بھلا آدمی تھا۔ اپنے کام سے کام رکھنے والا۔ اپنی بیوی اور بچے کی محبت میں زندگی ڈھونڈنے والا۔ تمام مردوں کی طرح سست۔ انہوں نے طارق کو بتایا اتوار کو عرفان کے اسکول جانا ہے۔ پیرنٹس ڈے۔ طارق نے سنجیدگی اور خاموشی سے ان کی بات سنی اور یقین دلایا کہ وہ اتوار کو جلد اٹھ جائے گا اور لازمی، لازمی عرفان کے اسکول جائے گا۔ انہوں نے ایک گہرا سانس لیا۔ انہیں معلوم تھا کہ اتوار کے دن طارق کو بستر سے اٹھانا وقت برباد کرنے والا عمل ہے۔ طارق کے ساتھ کہیں بھی جانا انہیں آج بھی ایک عجیب سا احساس دلاتا تھا۔ ایک بااعتماد ساتھ۔ لیکن اب طارق شگفتہ خاطری سے سب کچھ ان پر چھوڑ کر پیسہ کمانے تک محدود ہوکر رہ گیا تھا۔ کروٹ بدل کروہ سو گئیں۔ وہ رات کو جلد سونے کی کوشش کرتی تھیں تاکہ علی الصباح عرفان کو اسکول بھیج سکیں۔
صبح ان کی آنکھ کھلی تو پانچ دس منٹ دیر ہوچکی تھی۔ وہ گھبرا کر بستر سے اٹھ بیٹھیں اور تیر کی طرح سیدھی عرفان کے بستر پر پہنچ گئیں۔ ’’عرفان جلدی اٹھو، دیکھو دیر ہورہی ہے اٹھو، جلدی سے تیار ہوجاؤ، تمہارے اسکول کی وین آنے والی ہے۔‘‘ انہوں نے ایک ساتھ کئی جملے بول دیے۔ ’’ماما، مجھے نیند آرہی ہے‘‘۔ مسز طارق کا منہ غصہ سے لال ہوگیا۔ وہ چیخ کر بولیں ’’عرفان ایک منٹ میں کھڑے ہوجاؤ، ہری اپ، کوئی نیند نہیں آرہی، اٹھو، دانت برش کرو‘‘۔ ’’ماما میں آج اسکول نہیں جاؤں گا‘‘۔ ’’کیا، کیا کہا، تم نے، اسکول نہیں جاؤں گا۔ تمہیں یہ کہنے کی جرات کیسے ہوئی، اٹھو فوراً ایک سیکنڈ میں کھڑے ہوجاؤ ورنہ بہت بری طرح پیش آؤں گی۔‘‘ بدقت عرفان بستر سے اٹھا اور واش روم میں چلا گیا۔ جتنی دیر میں عرفان واش روم میں تھا وہ اس کا یونی فارم استری کرتی رہیں۔ ’’عرفان تمہاری پتلون کی بیلٹ کہاں ہے؟‘‘ انہوں نے چیختے ہوئے پوچھا ’’ماما مجھے نہیں معلوم‘‘۔ ’’کیا مطلب مجھے نہیں معلوم جلدی بتاؤ بیلٹ کہاں رکھی ہے۔‘‘ بیلٹ ملی۔ یونی فارم تیار کرکے وہ ناشتہ بنانے میں مصروف ہوگئیں۔ ’’ماما موزے نہیں مل رہے ہیں‘‘۔ ’’دیکھو گیلری میں ٹنگے ہوں گے میں نے دھوکر وہیں ٹانگ دیے تھے۔‘‘ ناشتے کی میز پر بیٹھے تو عرفان بہت آہستہ آہستہ ناشتہ کررہا تھا۔ مسز طارق کو غصہ آنا شروع ہوگیا ’’عرفان جلدی کرو تمہاری وین آنے والی ہے۔ پرسوں بھی تم نے وین مس کردی تھی، مجھے خود تمہیں اسکول چھوڑنا پڑا تھا۔ تمہیں کچھ خیال ہے، جلدی کرو‘‘۔ ’’ماما جلدی کر تو رہا ہوں‘‘۔ ’’عرفان بکواس مت کرو، جلدی کرو اور یہ تم نے ٹائی کس طرح باندھی ہے۔ آج تک تمہیں ٹائی کی گرہ صحیح طرح باندھنی نہیں آئی، جلدی سے اتار کر دو، تمہارے ابو سے بندھواتی ہوں‘‘۔ عرفان نے ٹائی اتار کر دی۔ وہ جلدی سے بیڈ روم میں گئیں۔ طارق دھت سورہا تھا۔ طارق کو یوں سوتے دیکھ کر ان کے بدن میں چنگاریاں سلگنے لگیں۔ کیسا باپ ہے اسے اپنے بیٹے کی تعلیم کی ذرا فکر نہیں، انہوں نے سوچا اور غصے سے بولیں ’’طارق اٹھو، جلدی سے عرفان کی ٹائی میں گرہ لگادو‘‘۔ ’’کیا ہے یار سونے دو۔ اچھا اچھا لاؤ دو‘‘۔ جتنی دیر میں عرفان نے بیگ اٹھایا لنچ بکس لیا۔ باہر وین کا ہارن بجنے لگا۔ وہ تیزی سے گیلری میں گئیں اور وین والے کو مخاطب کرکے کہا ’’دومنٹ ٹھیرو، آتے ہیں‘‘ عرفان کا ہاتھ پکڑ کر وہ تیزی سے سیڑھیاں اترتی ہوئی نیچے آئیں۔ وہ اتنی جلدی کررہی تھیں کہ عرفان گویا ان کے ساتھ گھسٹ رہا تھا۔ عرفان کو وین میں سوار کراتے وقت انہوں نے نوٹ کیا عرفان کے جوتوں پر پالش نہیں ہے۔ اس کوتا ہی پر انہوں نے اپنے آپ کو لعنت ملا مت کی۔ واپس آکر کچن سمیٹا اور تھوڑی دیر سستانے کے لیے لیٹ گئیں۔ ان کے اعصاب چٹخ رہے تھے۔
دو ڈھائی بجے تک عرفان اسکول سے واپس آیا۔ انہوں نے یونی فارم تبدیل کروایا اور کچن میں اس کے لیے کھانا نکالنے لگیں۔ اس دوران مسلسل وہ عرفان سے اسکول میں اس کی تعلیمی مصروفیات کے بارے میں پوچھتی رہیں۔ کھانا کھا کر تھوڑی دیر بعد عرفان سوگیا۔ وہ بھی اس کے برابر میں پڑ کر سو گئیں۔ بہت پرسکون نیند آئی لیکن دروازے پر لگی مسلسل گھنٹی کی آواز نے انہیں اٹھا دیا۔ ’’کون ہے؟‘‘ انہوں نے سوچا۔ گھڑی پر نظر ڈال تو ساڑھے پانچ بج رہے تھے۔ مولوی صاحب آئے ہوں گے۔ عرفان کو قرآن پڑھانے کے لیے۔ وہی اتنے زور سے بیل بجاتے ہیں۔ انہوں نے دروازہ کھولا اور مولوی صاحب کو اندر آنے کے لیے راستہ دے دیا۔ مولوی صاحب ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے۔ وہ عرفان کے پاس آئیں۔ اسے اٹھایا ’’ماما میں آج سپارہ نہیں پڑھوں گا مولوی صاحب کو کہیں آج چھٹی کریں۔‘‘ ’’دیکھو عرفان یہ اچھی بات نہیں‘‘ انہوں نے نرمی سے کہا ’’ماما کہا نا میں آج مولوی صاحب سے نہیں پڑھوں گا‘‘۔ ’’اچھا اچھا ٹھیک ہے سوجاؤ میں مولوی صاحب کو منع کردیتی ہوں‘‘۔ وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئیں ڈرائنگ روم کے دروازے کے پاس آئیں اور قدرے اونچی آواز میں بولیں ’’مولوی صاحب کل آئیے گا آج عرفان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے‘‘۔