نعروں میں جکڑی قوم!

215

خدائے سخن میر تقی میر نے سب سے پہلے عشق کرنے والے کو سب سے بڑا کافر قرار دیا تھا۔ ہمارے خیال میں سب سے پہلے چلو! چلو! کا نعرہ بلند کرنے والے سے بڑا ستم گر کوئی نہیں ہوسکتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہم من حیث القوم نعرے باز ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ شاید برصغیر میں سب سے پہلے چلو! چلو! قندھار چلو کا نعرہ بلند ہوا تھا اس نعرے نے ہمیں ابھی تک اپنے سحر میں جکڑا ہوا ہے۔ ہر طرف نعرے گونج رہے ہیں۔ نعرے بازی حزب اختلاف کا شغل تھا اب تو حزب اقتدار بھی نعرے لگارہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا نعرہ ہے ’’کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘‘ کم از کم پچاس سیاستدان تو یقیناًاڈیالہ جیل جائیں گے، گویا وزیراعظم عمران خان نے پچاس مخالفین کو جیل بھیجنے کی تیاری کرلی ہے۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت ملک و قوم کی کیا خدمات انجام دے رہی ہے؟ آثار و قرائن بتارہے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت حزب اختلاف کے معروف اور سرکردہ رہنماؤں کو اڈیالہ جیل بھیجنے کے سوا کوئی اور کام کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی سو، اس پس منظر میں بلاخوف و خطر کہا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی سوچ اور کارکردگی ملک و قوم کے لیے خطرے کی علامت ہے کیوں کہ جب تحریک انصاف حزب اختلاف میں ہوگی تو اس کے رہنماؤں کے لیے بھی اڈیالہ جیل کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور حکومت اپنی ساری توجہ اور توانائی ان پر مقدمات بنانے میں صرف کرے گی۔ سوال یہ ہے کہ احتساب کا نعرہ لگا کر مخالفین کو جیل بھیجنا کیا واقعی ملک و قوم کی خدمت ہے اگر پیش رو حکومتوں نے کرپشن کی ہے تو ان کو سزا ملنا ہی چاہیے مگر اس سے بھی ضروری بات یہ ہے کہ ملکی معیشت بحال کی جائے، قوم کے مصائب و مسائل حل کیے جائیں، مخالفین کی کرپشن تلاش کرنے سے بہتر ہے کہ ایسے اقدامات کیے جائیں جو کرپٹ افراد کے لیے ایوان اقتدار کے دروازے بند کرنے کا سبب بنیں۔ نعرے بازی سے ملک و قوم کی خدمت نہیں کی جاسکتی، ہر ادارے کو اپنا کام کرنے دیا جائے، کسی کو مجرم ثابت کرنا عدالتوں کا کام ہے، اپنے کام پر توجہ دی جائے، مہنگائی اور بے روزگاری کے سونامی کا سدباب کیا جائے۔ تحریک انصاف کا چوتھا مہینہ بھی اختتام پزیر ہے مگر ابھی تک کوئی بھی ایسا کام نہیں کیا جو اس کی نیک نامی میں اضافہ کرسکے اس کی کارکردگی کو خوش آئند قرار دے سکے۔
ہم ایک مدت سے قومی حکومت کی افادیت اور ضرورت پر لکھ رہے ہیں مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، مگر اب ایسی آوازیں سنائی دے رہی ہیں جو قومی حکومت کی تشکیل کے لیے ضروری ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ سیاست کار اقتدار میں آکر ملک و قوم کی بہتری کے بارے میں نہیں سوچتے، کیوں کہ سیاست تجارت بن گئی ہے، تاجر کی سرمایہ کاری منافع کے حصول کے لیے ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار میں آکر تاجروں کی اولین ترجیح منافع حاصل کرنا ہوتا ہے اور یہ بھی طے ہے کہ کوئی بھی تاجر گھاٹے کا سودا نہیں کرتا۔ سیانے کہہ گئے ہیں کہ راجا بیوپاری پر جابھکاری۔ اگر عمران خان ملک و قوم کی حقیقی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو مڈٹرم الیکشن کے بارے میں سوچنے کے بجائے قومی حکومت کی تشکیل کے بارے میں سوچیں، ایسے افراد ڈھونڈیں جو ملک وقوم کی خدمت کے اہل ہوں، تنخواہ کے بجائے تن من ملک و قوم کے لیے وقف کرنے کے جذبے سے سرشار ہوں، اگر پانچ سال کے لیے قومی حکومت قائم کردی جائے تو قوم سیاست کاروں کو مسترد کردے گی اور الیکشن جسے سفید ہاتھی کے لیے ابابیل کا کردار ادا کرے گی۔ کیا یہ حقیقت غور طلب نہیں کہ پاکستان کو تنہا اور رسوا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی تھی مگر آرمی چیف کی کوششوں سے پاکستان تنہائی کے صحرا اور رسوائی کی دلدل سے نکل آیا ہے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا یہ فرمان ہے کہ پاکستان کرپشن کی وجہ سے ٹوٹا ہے، اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ کرپشن تحریک انصاف کی حکومت پر سوار ہے اسے کرپشن کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ صدر محترم اس حقیقت سے کیوں چشم پوشی کررہے ہیں کہ سقوط ڈھاکا کی اصل وجہ کرپشن نہیں ناانصافی ہے۔ جہاں ناانصافی کا راج ہو وہاں کرپشن کا بول بالا ہوتا ہے۔ مشرقی پاکستان کے ساتھ ناانصافی نہ کی جاتی تو سقوط ڈھاکا کا سانحہ کبھی پیش نہ آتا۔