کیا ہوا ہے قلم چھوڑ دیا؟؟ یا قلم توڑ دیا؟؟
نہیں بھئی نہ قلم چھوڑا ہے نہ قلم توڑا ہے۔۔۔ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ قلم نے ہمیں چھوڑ دیا‘ صفحات سے روٹھ بیٹھے۔۔۔ لیکن ہم بھی کیا کریں سارا گھر الٹ پلٹ ہو رہا ہے۔ کہیں رنگ کرنے والے، کہیں پلمبر اور کہیں بڑھئی گھر کی مرمت میں لگے ہیں، ظاہر ہے گھر کے کام کو کرائے برسوں ہو گئے تھے۔ عزیز کے بعد یا تو بچوں کو ٹھیک کیا جاسکتا تھا یا گھر کو لہٰذا ایک زیادہ اہم چیز کا انتخاب کیا۔ گھر تو ٹھیک ہوتے رہتے ہیں اور ہوتے رہیں گے، تو معاملہ یہ تھا کہ قلم اور صفحات اگر میز پر ہوتے تھے تو اب انہیں ڈھونڈنے کے لیے کبھی پلنگ کے نیچے منہ دینا پڑتا تو کبھی باورچی خانے کی الماریوں میں تلاش کیا جاتا۔ ایک دفعہ تو جوتے کے ریک سے ملے لیکن اگلے چار گھنٹوں تک تلاش کے بعد بھی ایک ثابت اور سادہ صفحہ نہ مل سکا۔ لکھنے کی میز پر شیشوں اور برنیوں کا انبار تھا جو باورچی خانے سے نکل کر خانہ بہ دوشی اور کسمپرسی کے عالم میں براجمان تھیں۔ افراتفری ایسی تھی کہ کھانا چڑھانے کے لیے تیل سے لے کر ہلدی، مرچ اور نمک تک ایک دفعہ کے ڈھونڈے میں نہیں ملتے تھے۔ لہٰذا کئی کئی چکر باورچی خانے اور لکھنے کی میز کے لگا کر اور دو، تین دفعہ تلاش کے بعد مطلوبہ چیز ہاتھ آئی۔ خوشی تو بہت ہوتی لیکن اگلی دفعہ وہ پھر کہیں اور منتقل کر دی جاتی کہ پرانی جگہوں کو ہلا جلا کر کام کرنے والوں کو اپنے کام نکالنے ہوتے تھے، اور اس کام نکالنے کے چکر میں وہ ہمارے بہت سے کام بڑھا دیتے۔۔۔ واقعی گھر کو بنانا اور سنبھالنا کھیل نہیں۔۔۔ کتنا اور کیسا مشکل وقت ہوتا ہے۔۔۔ بہرحال مشکلات تو زندگی کا حصہ ہیں۔ مشکلات سے گھبرا کر بھاگنا یا ریت میں منہ دے کر مشکل وقت گزر جانے کا انتظار کرنا حماقت ہے۔ انسان کی قابلیت اور صلاحیت مشکلات ہی میں نکھرتی ہیں۔ دنیا مشقت کا گھر ہے، قرآن ہمیں بتاتا ہے اور پھر سوال کرتا ہے کہ کون اس مشکل گھاٹی کو عبور کرتا ہے؟ اس مشکل گھاٹی کے اختتام پر ہی جنت کا گھر آپ کا منتظر ہوتا ہے جب کہ آپ نے گھاٹی کا ہر قدم اللہ کے خوف اور محبت میں ڈوب کر رکھا ہو۔ عورت اور مرد دونوں اپنے اپنے لحاظ سے گھروں کو بناتے اور سنبھالتے ہیں اللہ نے ہر ایک کو ایک الگ دائرے کے لیے خاص طور پر تخلیق کیا ہے۔
آج جدید سائنس کی تحقیق بھی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ مردوں اور عورتوں کے ذہن اپنی ساخت کے اعتبار سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ امریکا کی یو نیورسٹی آف پینسولینا میں اس سلسلے میں تحقیق کی گئی۔ محققوں نے بتایا کہ انسانی ذہن کی پیچیدہ وائرنگ میں مردوں اور عورتوں کے نظام میں بالکل فرق ہوتے ہیں۔ اسی باعث مرد ایک وقت میں ایک کام سیکھنے اور انجام دینے میں بہتر ہوتے ہیں جب کہ خواتین ایک ہی وقت میں کئی کئی کام کرنے کے لیے زیادہ موزوں ہوتی ہیں۔ پھر خواتین چیزوں پر غور کرنے، چہرے اور الفاظ کو یاد رکھنے اور سماجی شعور میں آگے ہوتی ہیں جب کہ مرد اپنے اردگرد کی جگہ کا اندازہ لگانے اور حرکت کرنے میں تیزی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ تو ایک سامنے کی بات ہے کہ عورتیں شادیوں میں زیور، کپڑے اور لوگوں کے انداز اور الفاظ یعنی (تبصرہ) بہت زیادہ یاد رکھتی ہیں۔ یعنی سماجی شعور کا خورد بینی مظاہرہ کرنے میں بے مثال ہوتی ہیں۔ اس تحقیقی کے ایک محقق ڈاکٹر روہن کا یہ بھی کہنا تھا کہ: ’’یہ بہت دل چسپ بات ہے کہ خواتین اور مردوں کے ذہن ایسے ہیں جیسے ایک دوسرے کی مدد کے لیے بنائے گئے ہوں‘‘۔ یقیناًاس میں کوئی شک نہیں کہ ربّ العزت نے عورت اور مرد کو ایک دوسرے کا مددگار بنایا ہے اور اس مددگاری کی اہمیت سب سے زیادہ جس کام کے لیے ہے وہ معاشرے کے بنیادی یونٹ یعنی خاندان کی مضبوطی کے لیے ہے۔ خاندان مضبوط ہوگا تو معاشرہ مضبوط ہوگا۔ مغرب آج سب سے زیادہ زور اسی یونٹ کو توڑنے کے لیے لگا رہا ہے۔ چناں چہ ہمیں بھی سب سے زیادہ زور اسی یونٹ کی مضبوطی کے لیے لگانا چاہیے۔
بھارت کی ریاست بھوپال کی ’’برکت اللہ یونیورسٹی‘‘ نے اس سلسلے میں ایک انوکھا کورس شروع کیا ہے۔ اس کورس میں مستقبل کی دلہنوں کو سسرال میں رہنے بسنے اور سسرالیوں کا دل جیتنے کے طریقے سکھائے جاتے ہیں۔ اس کورس کا نام ’’مثالی بہو‘‘ رکھا گیا ہے۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے کورس متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس کا مقصد لڑکیوں کو یہ سکھانا ہے کہ شادی کے بعد نئے ماحول میں کیسے رہا جائے تاکہ نئی دلہنیں خود بھی خاندانوں کے ساتھ جڑی رہیں اور خاندانوں کو بھی یکجا رکھ سکیں۔ اس سے پہلے بھی بھارت کے ایک شہر کاشی میں ’’میری بیٹی میرا فخر‘‘ کے نام سے ایک کورس متعارف کرایا گیا تھا۔ عموماً پڑھی لکھی لڑکیاں شادی کے بعد ملازمت کرنا چاہتی ہیں لیکن انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اپنی ملازمت اور گھر کی زندگی میں توازن کیسے رکھا جائے؟ لہٰذا ایک خوف ان میں ہوتا ہے کہ شادی کے بعد ان کا مستقبل کیسا ہوگا؟ ہمارے خیال میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ان کے دائرۂ کار کا لحاظ رکھنا چاہیے، انہیں خاص طور سے ایسی تعلیم حاصل کرنا چاہیے جس کے بعد انہیں پورے دن کے بجائے آدھے دن کی ملازمت کرنا کافی ہو۔ (اگر ضرورت ہو تو) دوسری طرف تعلیمی اداروں میں ’’مثالی بہو‘‘ کورس کے علاوہ لڑکوں کے لیے ’’مثالی شوہر‘‘ کورس متعارف کروانا چاہیے۔