پھر آگیا ہے ایک نیا سال دوستو
اس بار بھی کسی سے دسمبر نہیں رکا
سانسوں کی جنگ لڑتے ہوئے ایک سال اور گزر گیا۔ نئے سال پر اس مرتبہ بھی گالیوں کا وہی طوفان ہے۔ لوگوں کی برداشت تنقید سے آگے بڑھ گئی ہے۔ ٹمٹماتی ہوئی گیس کی لو اور اس موسم میں بھی بجلی کی آنکھ مچولی نے لوگوں کے پارے بلند کر رکھے ہیں۔ گالیوں کا دم غنیمت ہے۔ گالیاں نہ ہوتیں تو آدھی دنیا ہائی بلڈ پریشر سے مرجاتی۔ کیلنڈر بدلتا ہے لیکن ہم بدلتے ہیں نہ ہماری حکومتیں۔ عمران خان کے بارے میں یہ رائے درست ہے کہ انہیں اپنے لیے کچھ نہیں چاہیے۔ وہ تو صرف عوام کی زندگی عذاب بنانے کے لیے آئے ہیں۔ وزیراعظم نے اپوزیشن کو دیوار اور عوام کو تجاوزات سمجھ رکھا ہے جسے گرانے کی وہ ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔ پہلے دعا دی جاتی تھی یا اللہ اچھا سا گھر دے دے۔ اب دعا کی جاتی یا اللہ ایسا گھر دے جس میں بجلی ہو گیس ہو۔ اس موسم میں بھی چودہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ موسم سرما میں موسم گرما کی یادیں تازہ کرنے کی بات ہے۔ حکومت اتنی تیزی سے نئے برس میں داخل ہوئی ہے کہ بجلی پچھلے برس ہی میں رہ گئی ہے۔ بریانی تمام کھانوں کی شہزادی ہے۔ گیس کی مدھم لو کا کمال یہ ہے کہ بریانی پکانے رکھیں پتیلی میں سے لئی نکلتی ہے۔ جن آلوؤں کو پکا سمجھ کر آپ زور آمائی کرتے ہیں دھیمی لو کی برکت سے وہ کچا آلو اچھل کر مہمان کی گود میں جا گرتا ہے۔ حکومت عوام کے بالوں میں چیونگم کی طرح چپک گئی ہے۔ تعلیم انسان کو انگوٹھے سے دستخط تک لائی، جدید ٹیکنالوجی اسے دستخط سے پھر انگوٹھے تک لے آئی۔ یہ حکومت بھی پانچ سال ٹک گئی تو ہم پھر لکڑیاں جلانے کے دور میں آجائیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو اس میں عمران خان کی غلطی نہیں ہوگی۔ وہ بوڑھے ہوگئے ہیں۔ جب آدمی کو اپنی ہی بیوی سے پیار ہونے لگے تو سمجھ جائیں وہ بوڑھا ہوگیا۔ بڑھاپے میں آدمی سے شلوار کا ازار بند نہیں سنبھالا جاتا پاکستان جیسا مشکل ملک سنبھا لنا!!
نئے سال کے پہلے دن کی بات ہے۔ ٹوپیاں بیچنے والا ایک سیلز مین تھک ہار کر ایک درخت کے نیچے لیٹ گیا۔ ٹوپیاں اس نے اپنے پہلو میں رکھ لیں۔ تھوڑی دیر بعد آنکھ کھلی تو دیکھا سب ٹوپیاں غائب۔ وہ پریشان ہوا یا خدا ٹوپیاں کہاں گئیں۔ اِدھر اُدھر دیکھا ٹوپیاں کہیں نظر نہیں آئیں۔ اس کی نظر درخت پر پڑی۔ دیکھا درخت پر بندر ہی بندر ہیں۔ اور ہر بندر نے ٹوپی پہن رکھی ہے۔ وہ بہت اچھلا کودا، درخت پر چڑھا لیکن ایک ٹوپی بھی بندروں سے حاصل نہ کرسکا۔ ٹو پی پہنے بندر اس کے سامنے اچھلتے کودتے پھر رہے تھے اور وہ بے بسی سے ان کو دیکھ رہا تھا۔ اچانک اسے ایک حکایت یاد آئی۔ حکایت والا سوداگر بھی ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہوگیا تھا۔ لیکن وہ ایک چالاک سوداگر تھا۔ وہ جانتا تھا نقل کرنا بندروں کی فطرت ہے۔ اس نے بندروں کی طرف دیکھا اور اپنے سر سے ٹوپی اتار کر زور سے زمین پر دے ماری۔ تمام بندروں نے بھی سوداگر کی نقل کرتے ہوئے ٹوپیاں اتار کر زمین پر مارنا شروع کردیں۔ ذرا دیر میں سوداگر کو ٹوپیاں حاصل ہوگئیں۔ سیلز مین نے بھی ایسا ہی کیا۔ اس نے اپنے سر سے ٹوپی اتاری اور زمین پر دے ماری۔ ایک بندر نے درخت سے چھلانگ لگائی اور وہ ٹوپی بھی لے اڑا۔ ساتھ ہی بولا ’’ہمیں بھی پاکستانی عوام سمجھ رکھا ہے کیا جو بار بار بیوقوف بن جاتے ہیں‘‘۔
نئے سال کے آغاز پر قوم کے نام وزیر اعظم کا ٹویٹ عوام کو مزید بیوقوف بنانے کی ایک ایسی ہی کوشش ہے۔ وزیراعظم نے اس ٹویٹ میں کہا ہے کہ ان کی حکومت اپنے ملک کی چار برائیوں کے خلاف جہاد کرے گی: غربت، ناخواندگی،ظلم اور کرپشن۔ فی سال چار برائیوں کا خاتمہ ایک عظیم پیش رفت ہے۔ اس طرح پانچ سال میں ملک سے بیس برائیوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ حکومت ان برائیوں کا خاتمہ اس سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے کرنا چاہتی ہے جو بجائے خود ان برائیوں کا ذمے دار ہے۔ عمران خان پوری دنیا سے قرض جمع کرلیں، ایک ایٹمی ملک کے وزیراعظم ہوتے ہوئے متحدہ عرب امارات کے امیر کے ڈرائیور بن جائیں۔ وزیراعظم ہاؤس کے دروازے کھلوادیں یا کتنی ہی دولت جمع کرلیں اس نظام میں رہتے ہوئے غربت کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ سودی سرمایہ دارانہ نظام پر مبنی ہے۔ جو دولت کو چند ہاتھوں میں جمع کردیتا ہے۔ عالمی بینک نے 2017 میں دنیا کی کل پیداوار 80ٹریلین امریکی ڈالر بتائی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس دولت کا 82فی صدایک فی صد امیر ترین طبقے کی جیب میں چلاگیا ہے جب کہ غریب ترین دنیا کی نصف آبادی کی آمدن میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ دولت کے ارتکاز کا اندازہ اس حقیقت سے لگائیے کہ دنیا کے 42جی ہاں صرف 42افراد کے پاس دنیا کی نصف غریب ترین آبادی کی کل دولت کے برابر دولت جمع ہے۔ جس مدینے جیسی ریاست کی بات عمران خان کرتے ہیں وہاں اسلام دولت کی پیداوار نہیں دولت کی منصفانہ تقسیم کا نظام پیش کرتا ہے جس کے بعد غربت کا خاتمہ یقینی ہوجاتا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے ’’تاکہ جو لوگ تم میں دولت مند ہیں ان ہی کے ہاتھوں میں ہی (دولت) نہ پھرتی رہے (الحشر، 59:7)‘‘۔
جہاں تک خواندگی کا تعلق ہے تو جس نظام میں لوگوں کے پاس کھانے کے لیے موجود نہیں، رہنے کے لیے چھت نہیں، پہننے کے لیے مناسب لباس نہیں، وہاں کوئی غریب بچوں کی مہنگی تعلیم کی عیاشی کا کیسے متحمل ہوسکتا ہے۔ ظلم کا خاتمہ یہ بھی ایک فریب ہے۔ یہ ملک اپنے آغاز سے لے کر آج تک اینگلو سکسن قوانین کی بنیاد پر چلایا جارہا ہے۔ پاکستان کی عدالتیں قرآن وسنت کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرتیں بلکہ برطانوی سامراج کے چھوڑے ہوئے عدالتی نظام کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہیں۔ اللہ کی آخری کتاب قرار دیتی ہے ’’اور جو اللہ کے فرمائے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہ دے تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں‘‘۔
تحریک انصاف اس بات پر فخر کا اظہار کرتی آئی ہے کہ وہ کرپشن کے خاتمے کا مینڈیٹ لے کر آئی ہے۔ جمہوریت میں کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں۔ جمہوریت انسانوں کو قانون سازی کا حق دیتی ہے۔ جو لوگ اسمبلیوں میں جاتے ہیں وہ اس حق کو استعمال کرتے ہوئے ایسی قانون سازی کرتے ہیں جو ان کی دولت میں اضافہ کرتی ہے، ان کی ناجائز دولت کو تحفظ دیتی ہے۔ ایسا صرف پاکستان میں نہیں دنیا کے تمام جمہوری ممالک میں ہورہا ہے۔ دنیا بھر میں لوگ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر اسمبلیوں میں جاتے ہیں، لوگوں کے نمائندے قرار پاتے ہیں لیکن قانون سازی وہ اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے کرتے ہیں۔ اس نظام میں حکومتیں جب چاہتی ہیں مقدمات بناتی ہیں اور جب چاہتی ہیں مقدمات واپس لے لیتی ہیں۔ اصغر خان کیس واپس لے لیا گیا۔ وجہ یہ بیان کئی گئی کہ شواہد نہیں ملے۔ نواز شریف کے خلاف ثبوت مل گئے۔ ایک نہیں دوبار۔
صاحبو ! پورا کالم گزر گیا ہم نے ابھی تک سردی پر کوئی بات نہیں کی۔ سردیوں کی سب سے خوشگوار چیز سردیوں کی دھوپ ہے لیکن کیا جائے جدید ٹیکنالوجی نے یہ لطف بھی ہم سے چھین لیا ہے۔ اس موسم میں چھاؤں میں بیٹھیں تو سردی لگتی ہے اور اگر دھوپ میں بیٹھیں تو موبائل کی اسکرین نظر نہیں آتی۔