سینٹرل جیل سے موبائل جیمرز ہٹانے کا فیصلہ کیوں؟ 

264

منی لانڈرنگ اور جعلی بینک اکاؤنٹس کے مقدمات میں سندھ کے ’’بڑے چوروں و سیاست دانوں‘‘ کی گرفتاری کے امکانات بڑھنے کے ساتھ جیلوں میں ضروری سہولتوں کی فراہمی کو مبینہ طور پر یقینی بنانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اہم اقدامات کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں سندھ کے وزیر جیل خانہ جات سید ناصر حسین شاہ نے صوبے بھر کی جیلوں سے جیمرز ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ میڈیا سے گفتگو میں ناصر شاہ نے کہا کہ اس اعلان پر عمل درآمد سے پہلے خطرناک قیدیوں کو نئی جیل میں منتقل کیا جائے گا۔ لانڈھی کے قریب نئی جیل کا 65 فی صد کام مکمل کرلیا گیا، جہاں ابتدائی طور پر 500 قیدیوں کی گنجائش ہے۔ صوبائی وزیر جیل خانہ نے کہا کہ اس نئی جیل میں کراچی سینٹرل جیل سے خطرناک قیدیوں کو منتقل کیا جائے گا۔ ناصر شاہ نے کہا کہ نئی جیل کے آپریشنل ہونے پر شہری علاقوں میں جیلوں سے جیمرز ختم کر دیے جائیں گے۔ ان جیمرز کی وجہ سے کراچی، حیدرآباد اور سکھر کی جیلوں کے قریب رہنے والے شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یاد رہے کہ کراچی آپریشن کے آغاز سے قبل سینٹرل جیل کراچی میں موبائل فون جیمر لگا دیے گئے تھے۔ جس کی وجہ سے جیل کے اطراف موجود پیر الٰہی بخش کالونی، مارٹن روڈ، جیل روڈ، یونیورسٹی روڈ کے اطراف موجود کم بیش 20 لاکھ افراد کی آبادی موبائل فون کی سہولت استعمال کرنے سے محروم ہوچکی ہے۔ یہاں کے لوگوں کو موبائل فون استعمال کرنے کے لیے جیل کے احاطے سے دو کلو میٹر دور جانا پڑتا ہے۔ تاہم اب پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور، سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی کرپشن اور جعلی بینک اکاؤنٹس کے مقدمات میں گرفتاری کے خدشات بڑھنے لگے ہیں۔ ان اہم سیاسی شخصیات کو کسی بھی وقت گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ جس کی وجہ سے پوری صوبائی حکومت بے چینی کا شکار ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ صوبائی حکومت نے جیل کے نئے اور ’’معزز‘‘ مہمان کی سہولت کے لیے اہم اقدامات کا فیصلہ کیا ہے۔ ان اقدامات کے تحت سینٹرل جیل کو موبائل جیمرز فری بنایا جارہا ہے۔ جب کہ جیل کی بی کلاس بیرکوں کی تزئین و آرائش کی جارہی ہے۔ یہی نہیں بلکہ خصوصی طور پر آصف علی زرداری کی وہ خاص بنگلہ نما بیرک کو بھی ضروری سامان سے آراستہ کیا جارہا ہے جہاں پی پی پی کے رہنما پہلے بھی گیارہ سال قید کاٹ چکے ہیں۔
اس بیرک کے علاوہ دیگر بیرکوں کو بھی ’’وی وی آئی پی‘‘ طرز پر ڈھالا جارہا ہے تاکہ ان اہم شخصیات کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچ سکے اور انہیں قید کا احساس نہ ہوسکے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جیل میں متوقع نئے اہم قیدیوں کو بہترین سہولتوں کی فراہمی کا ٹاسک صوبائی وزیر جیل خانہ جات ناصر حسین شاہ کو دیا گیا ہے۔ ناصر حسین شاہ سندھ میں پی پی پی کی حکمرانی برقرار رہنے پر صوبے کے وزیراعلیٰ بھی بنائے جاسکتے ہیں۔ ایسی صورت میں جیل خانہ جات کا محکمہ ان ہی کے پاس رہے گا جبکہ داخلہ کا اہم قلمدان بھی انہیں دیا جاسکتا ہے۔
خیال رہے کہ 5 سال بعد سینٹرل جیل سے جیمرز ہٹانے کا فیصلہ بھی صرف اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ آئندہ کم از کم مزید 5 سال آصف زرداری اور ان کے خاص دوستوں کو جیل میں قید رہنا پڑے تو انہیں مشکلات نہ ہو۔ لیکن تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ جیل کے اطراف رہنے والے افراد کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے موبائل جیمرز ہٹائے جارہے ہیں۔ شہری یہ بات دس سال مشاہدہ کے بعد ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ پی پی پی کی صوبائی حکومت کراچی کے لوگوں کو آسانیاں فراہم کرنے پر بغیر کسی مقصد کے توجہ دے سکتی ہے۔ انہیں یقین ہونے لگا ہے کہ جیل سے جیمرز ہٹانے کا فیصلہ عوام کی سہولت کے لیے نہیں بلکہ جیل کے نئے بااثر متوقع مہمانوں کو سہولتیں فراہم کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔
سندھ حکومت کو اپنی پارٹی کی اہم شخصیات کی گرفتاری کے خدشات کے ساتھ اپنی حکومت کے خاتمے کا بھی ڈر ہے جس کی وجہ سے صوبائی کابینہ نے پیر کو ہونے والے اجلاس میں نہ صرف سرکاری ملازمتوں پر پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے بلکہ کابینہ نے گریڈ ایک سے 15 تک کی خالی اسامیوں پر بھرتی کرنے کی منظوری بھی دی۔ اس حوالے سے کابینہ کے اجلاس کے بعد بریفنگ دیتے ہوئے مشیر قانون و اطلاعات مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ سندھ میں نئی بھرتیوں کے حوالے سے ایک کمیٹی بنائی گئی ہے، جو ایک ہفتے میں اپنی تجاویز مرتب کرے گی اور بھرتیوں سے متعلق قانونی پیچیدگیوں کا جائزہ لے گی۔ مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ سرکاری زمینوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ کو فوری منسوخ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ کابینہ نے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں تبدیلی کی منظوری بھی دے دی، جس کے بعد میئر، ڈپٹی میئر، چیئرمین اور وائس چیئرمین کو دو تہائی اکثریت کے بجائے سادہ اکثریت سے ہٹایا جاسکے گا۔ ان کے مطابق سندھ کابینہ نے سندھ انجرڈ پرسن کمپلسری میڈیکل ٹریٹمنٹ (عمل عمر ایکٹ) منظور کرلیا اور ڈاکٹر عذرا پیچو ہو، مرتضیٰ وہاب، سیکرٹری صحت اور سیکرٹری قانون پر مشتمل کمیٹی بنادی جو اس کو فائنل کرکے اسمبلی میں پیش کریں گے۔ حکومت کے یہ اہم فیصلے مستقبل میں حکومت سازی کے لیے حکمت عملی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ 23 جنوری کے بعد یا اس سے قبل منی لانڈرنگ اور جعلی اکاؤنٹس پر عدالتوں کا فیصلہ کیا ہوتا ہے۔ سندھ ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے عوام ان مقدمات میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو ’’اندر‘‘ ہوتا ہوا دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ مگر خواہشات سے کیا ہوتا ہے بقول شاعر
’’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے‘‘