طالبان، امریکا مذاکرات کا مستقبل

173

طالبان نے قطر میں امریکا کے ساتھ ہونے والے مذاکرات منسوخ کردیے ہیں ۔ یہ مذاکرات بدھ کو دوحہ میں ہونے تھے اور ان میں شرکت کے لیے امریکا اور طالبان دونوں کے وفود دوحہ میں موجود تھے تاہم آخری لمحات میں امریکا کی جانب سے کیے جانے والے بیجا اصرار کے باعث طالبان رہنماؤں نے مذاکرات کو بے فائدہ قرار دے کر منسوخ کردیا ۔ دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کا ایجنڈا افغانستان میں جنگ بندی اور امریکا کی افغانستان سے جزوی واپسی کے بعد کی صورتحال پر غور کے لیے تھا۔ اس سے قبل یہی مذاکرات سعودی عرب میں ہونا تھے مگر وہ بھی طالبان نے منسوخ کردیے تھے ۔ طالبان کا موقف ہے کہ افغانستان میں اگر کوئی فیصلہ کن قوت ہے تو وہ امریکا ہے جبکہ افغان حکومت کی حیثیت کٹھ پتلی کی سی ہے ۔ اسی لیے طالبان رہنماؤں نے کہا تھا کہ وہ حتمی مذاکرات صرف اور صرف امریکا کے ساتھ کریں گے اور ان مذاکرات میں کوئی تیسرا فریق موجود نہیں ہوگا جبکہ آخری لمحات میں امریکی وفد کا ناجائز اصرار تھا کہ اس میں افغان حکومت کے نمائندوں کی موجودگی ضروری ہے ۔ امریکا اور افغان حکومت کے ساتھ طالبان کے یہ مذاکرات نہ تو پہلے ہیں اور نہ آخری ۔ 2009 سے طالبان مذاکرات کی میز پر ہیں ۔ دوحہ میں امریکا کی سینٹرل کمانڈ برائے ایشیا کا ہیڈ آفس ہے جس کے باعث یہاں پر طالبان نے بھی اپنا سیاسی دفتر قائم کیا ہوا ہے ۔ دوحہ میں طالبان کا دفتر یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ وہ افغانستان میں حتمی امن کے لیے امریکا کی اہمیت جانتے ہیں ۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان اور سعودی عرب سہولت کار کا کردار ادا کرتے رہے ہیں ۔ ان مذاکرات کی کامیابی کے لیے پاکستان امریکی فرمائش پر کئی اہم طالبان رہنماؤں کو رہا بھی کرچکا ہے جن میں ملا برادر بھی شامل ہیں ۔ ان رہنماؤں کی گرفتاری بھی امریکی فرمائش پر ہی عمل میں آئی تھی ۔ جب سے چین کی سرحد افغانستان سے متصل ہوئی ہے ، وہ بھی اس مذاکراتی عمل کا حصہ بن چکا ہے ۔حال ہی میں روس دوبارہ سے افغانستا ن میں سرگرم ہوچکا ہے اور ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی اس نے طالبان کے ساتھ ایک امن کانفرنس منعقد کی تھی ۔ اس وقت افغانستان کی صورتحال یہ ہے کہ اس کا اکثریتی علاقہ طالبان کے قبضے میں ہے اور افغان حکومت کی رٹ کابل میں بھی باقی نہیں رہ گئی ہے ۔ نومبر میں شروع ہونے والے طالبان کے ساتھ امریکی مذاکرات کا اونٹ ابھی تک کسی کروٹ نہیں بیٹھ سکا ہے ۔ چند روز قبل ان ہی مذاکرات کا دور ابو ظبی میں ہوا تھا جس میں چین اور پاکستان بھی شامل تھے ۔ طالبان کی جانب سے مذاکرات کی منسوخی کے بعد امریکی فرستادہ زلمے خلیل زاد نے اس خطے کا دو ہفتے پر مشتمل ہنگامی دورہ شروع کردیا ہے جس میں وہ افغانستان کے علاوہ پاکستان ، چین اور بھارت کا بھی دورہ کریں گے ۔ اس دورے کا ماحصل کیا ہوگا ؟ یہ تو دو ہفتے بعد ہی سامنے آسکے گا تاہم یہ بات واضح ہے کہ طالبان کا موقف اصولی ہے اور امریکا کا اصرار بیجا ۔اصل سوال یہ ہے کہ آخر امریکا چاہتا کیا ہے ؟ امریکا نے بلا کسی وجہ کے افغانستان پر حملہ کیا ، یہاں پر اپنی فوجیں داخل کیں اور اس پورے خطے کو عدم استحکام کا شکار کردیا ۔ اب تو وہ بالکل تنہا رہ گیا ہے اور نام کے لیے موجود اتحادیوں کی ڈیڑھ دو سو کی نفری بھی واپس جاچکی ہے ۔ امریکا کئی مرتبہ افغانستان سے واپسی کا اعلان کرچکا ہے جو محض اعلان تک ہی محدود ہے ۔ کراچی کی بندرگاہ سے افغانستان جانے والے روز درجنوں ٹرالروں پر مشتمل قافلے یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ امریکا کا افغانستان سے واپسی کا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔ اگر امریکا واپس جارہا ہوتا تو فوجی سازو سامان افغانستان جانے کے بجائے وہاں سے واپس آرہا ہوتا ۔ طالبان کے ساتھ امریکی مذاکرات کا واضح مطلب یہ ہے کہ امریکا نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ طالبان ہی افغانستان میں فیصلہ کن قوت ہیں ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو گزشتہ 17 برسوں میں امریکا طالبان کا وجود ہی ختم کرچکا ہوتا ۔ اگر امریکا طالبان کے ساتھ مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو اسے افغانستان میں امن کے لیے طالبان کو کیک میں سے ان کا بڑا حصہ دینا ہوگا ۔ مذاکرات کا کہیں سے یہ مطلب نہیں ہے کہ طالبان پر زور ڈال کر یکطرفہ شرائط منوائی جائیں اور افغانستان میں ایک کٹھ پتلی حکومت کی جگہ دوسری کٹھ پتلی حکومت قائم کردی جائے ۔ اس وقت طالبان کو مذاکرات کی نہ تو کوئی جلدی ہے اور نہ ضرورت ۔ یہ امریکا کی اپنی ضرورت ہے ۔ دوسری صورت میں افغانستان امریکا کا معاشی قبرستان بن چکا ہے اور امریکا کی مشکلات میں مزید اضافہ ہی ہوگا ۔ بہتر ہے کہ امریکا وقت گزارنے کے بجائے مذاکرات میں سنجیدگی اختیار کرے اور اپنے ٹیکس گزاروں سے حاصل کردہ رقم کو جنگ کی آگ میں مزید جھونکنے سے پرہیز کرے ۔