بجلی دیے بغیر ادائیگی

131

پانی و بجلی کے محکمے کے سیکریٹری نے عدالت عظمیٰ کو بتایا ہے کہ حکومت بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں سے بجلی لے یا نہ لے ، انہیں ان کے پاور پلانٹ کے استعداد کے مطابق ادائیگی کرنے کی پابند ہے ۔ عدالت میں ہی یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ کہ ملک میں بجلی کی قلت کے نتیجے میں شدید لوڈ شیڈنگ کے باوجود بجلی پیدا کرنے والی ان کمپنیوں نے بجلی پیدا نہیں کی مگر اس کا بل حکومت کو تھمادیا جس کے نتیجے میں گردشی قرضوں کی مالیت کھربوں روپے میں پہنچ چکی ہے ۔ دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے انکشاف کیا کہ 10 کمپنیوں کو فی کمپنی 159 ملین روپے اضافی دیے گئے ہیں ۔ جب سے ان کمپنیوں سے معاہدے کیے گئے ہیں ، اسی دن سے ان معاہدوں کی شرائط کے بارے میں یہ انکشافات کیے جارہے ہیں مگر اس کے بارے میں کوئی بات کرنے کو راضی نہیں ہے ۔ اب عدالت عظمیٰ میں ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہورہی ہے تو امید ہوچلی ہے کہ قوم کو اس بارے میں تفصیلات سے آگاہی ہوسکے گی ۔ اس سے پہلے ترکی بجرے پر موجود پاور پلانٹ کے ذریعے بجلی خریدنے کا اسکینڈل سامنے آچکا ہے جس پر عدالت نے ہی پابندی لگادی تھی ۔ اس کیس میں بھی یہی وجہ سامنے آئی کہ حکومت پاکستان نے معاہدے پر دستخط کیے تھے اس لیے بجلی لیے بغیر پاکستان نے عالمی عدالت میں ترکی فرم کو نہ صرف پوری ادائیگی کی بلکہ بھاری جرمانہ بھی ادا کیا ۔ اس معاہدے کو کے نتیجے میں راجا پرویز اشرف کا نام ہی عرف عام میں راجا رینٹل پڑ گیا تھا ۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ نجی پاور کمپنیوں کے ساتھ کیے گئے معاہدے ہمارے گلے کا پھندا بن گئے ہیں ۔ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس طرح کے معاہدے کیے گئے ہیں ۔ اصل مسئلہ اس طرح کے معاہدے کرنے والے لوگ ہیں ۔ ان لوگوں نے اپنے کمیشن کی خاطر قوم کو کھربوں روپے کے قرض کی دلدل میں ڈبودیا ہے ۔ بار بار کے مطالبوں کے باوجود ان کمپنیوں کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو عوام کے سامنے نہیں لایا گیا ۔ کرپشن کی بڑی وجہ ہی ایسے تمام معاہدات کو خفیہ رکھنا ہے ۔ کچھ ایسا ہی کھیل سی پیک میں بھی کھیلا گیا ہے ۔ عوام کو کچھ نہیں پتا کہ یہ قرضے کس شرح سود پر حاصل کیے گئے ہیں ، کب ادا کرنے ہیں اور نادہندگی کی صورت میں کیا ہوگا۔ عدالت عظمیٰ سے درخواست ہے کہ سی پیک سمیت ایسے تمام معاہدات کو عوام کے سامنے لانے کی ہدایت کرے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہوسکے ۔ بجلی کے معاہدوں میں بھی اس امر کو ملحوظ رکھا جائے کہ قوم کے اصل مجرم وہ لوگ ہیں جنہوں نے یہ ملک دشمن معاہدے کیے ۔ اس ضمن میں اب تک قوم کو پہنچنے والے نقصان کا حساب کتاب کرکے اسے ان مجرموں سے وصول کیا جائے ۔ ان مجرموں نے صرف یہ نہیں کیا کہ کرپشن کی بلکہ ان کی اس کرپشن کے نتیجے میں ملک بھاری قرضے تلے دب گیا اور اس کی وجہ سے ملک کی عزت اور وقار بھی داؤ پر لگا ۔ مزید برآں اس کے نتیجے میں آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنوں کے بل جھک کر بیل آؤٹ پیکیج مانگنا پڑا۔ اس بیل آؤٹ پیکیج کے لیے آئی ایم ایف نے اپنی کڑی شرائط منوائیں جن میں روپے کی قدر میں کمی ، تیل و گیس اور بجلی کے نرخوں میں بھی اضافہ ہوا ۔ اب قوم گردشی قرضوں کے ساتھ ساتھ گردشی مہنگائی کے گرداب میں بھی پھنس گئی ہے ۔ بہتر ہے کہ ان تمام چہروں کو سامنے لایا جائے اور ان سے بھرپور وصولی کے ساتھ ساتھ انہیں نشان عبرت بھی بنایا جائے تاکہ آئندہ کسی اور کو اس طرح قوم کے ساتھ کھلواڑ کی ہمت نہ ہوسکے ۔