متبادل جگہ فراہم کرنے کی ہدایت

177

گزشتہ بدھ کو وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں ایک اجلاس ہوا جس میں کئی وفاقی وزراء اور افسران نے شرکت کی۔ اہم موضوع سرکاری زمینوں اور املاک کو خالی کرا کے ان کے مناسب استعمال پر غور کرنا تھا۔ عمران خان نے ہدایت کی ہے کہ سرکاری اراضی خالی کراتے ہوئے غریبوں کو متبادل اور معیاری جگہ فراہم کی جائے۔ یہ بہت مستحسن فیصلہ ہے تاہم اس پر عمل کے لیے حسب روایت کوئی کمیٹی بنے گی جو مالیت کا تخمینہ لگائے گی۔ لیکن فوری ضرورت تو اس بات کی ہے کہ جن لوگوں نے سرکاری اراضی اور مکانوں پر قبضہ کر رکھا ہے پہلے ان کو متبادل جگہ فراہم کردی جائے۔ کہا جاتا ہے کہ اسلام آباد کے 70 فیصد علاقے پر یا تو ناجائز تعمیرات ہیں یا قبضے کیے ہوئے ہیں۔ ایک دن پہلے ہی عدالت عظمیٰ ایک اعلیٰ پولیس افسر پر برہمی کا اظہار کرچکی ہے کہ وہ لال مسجد خالی کروانے آئے تھے اور سرکاری کوارٹر پر قبضہ کرکے بیٹھ گئے۔ اعلیٰ افسران اور بااثر افراد میں ایسے کئی قبضہ گیر ہیں، کچی آبادیوں کا مسئلہ الگ ہے۔ یہ کراچی سمیت ہر بڑے شہر میں درپیش ہے۔ کراچی میں تو دکانیں، مکان اور بستیاں اندھا دھند خالی کرائی جا رہی ہیں۔ جب کہ وزیراعظم نے متبادل جگہ فراہم کرنے کی جو ہدایت کی ہے اس پر سب سے پہلے کراچی میں عمل ہونا چاہیے تھا کہ وہاں بڑی بے دردی سے دکانیں، مکان ڈھائے جا رہے ہیں اور قدیم بستیاں اجاڑی جا رہی ہیں۔ تاہم مذکورہ ہدایت عمران خان کی ہے جب کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے چنانچہ ممکن ہے کہ وفاقی حکومت کی ہدایت پر کراچی میں عمل نہ ہو۔ خود اسلام آباد میں متعدد کچی بستیاں قائم کر لی گئی ہیں اور وہاں کے حوالے سے بھی یہی سوال ہے کہ دارالحکومت میں جب سرکاری اراضیوں پر قبضے ہو رہے تھے اور کچی آبادیاں بسائی جا رہی تھیں تو سرکاری محکمے کیا کر رہے تھے جن کی تعداد درجنوں میں ہے۔ عدالت عظمیٰ کے حکم پر عمران خان کی قیام گاہ بنی گالا کو ریگولرائز (ضابطے میں لانا) کرنے کی ہدایت کی گئی ہے تو کیا اس کا اطلاق کچی آبادیوں پر نہیں ہونا چاہیے؟ اور کیا کراچی کے دکاندار اور سرکاری اراضی پر قابض افراد بھی یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب نہ ہوں گے کہ ہمیں بھی ریگولرائز کیا جائے۔ کہا تو یہی جاتا ہے کہ انصاف سب کے لیے یکساں ہے۔ بنیادی بات تو یہ ہے کہ پہلے متبادل جگہ دو پھر دکانیں گراؤ یا مکانات مسمار کرو۔ عدالت عظمیٰ نے ایک دن پہلے ایک اور حکم دیا ہے جس کے تحت اسلام آبادمیں قائم گرینڈ حیات ٹاور پر پابندی اٹھا لی گئی ہے۔ سابق وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے اس پر پابندی لگوائی تھی اور ان کا دعویٰ تھا کہ اس کی تعمیر میں بہت گھپلے ہوئے ہیں، اس کا ٹینڈر بھی غلط طریقے سے دیا گیا ہے۔ ان کے پاس اس عمارت کے خلاف بڑی مفصل رپورٹ تھی چنانچہ عدالت عالیہ اسلام آباد نے اس کی تعمیر پر پابندی لگا دی گو کہ اس ٹاور میں عمران خان سمیت بہت بڑے بڑے لوگوں نے فلیٹ بک کرائے ہوئے ہیں۔ بہرحال اب عدالت عظمیٰ نے اس بلند و بالا عمارت کی تعمیر پر سے پابندی اٹھا لی ہے۔ اس عمارت میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے بھی سرمایہ کاری کر رکھی ہے لیکن یہ فیصلہ کراچی میں بحریہ ٹاؤن کے منصوبے اور ایک بلند ترین عمارت پر بھی مثبت طور پر اثر انداز ہوگا اور ایک نظیر بن جائے گا۔ بحریہ ٹاؤن میں بھی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سمیت ہزاروں افراد کے پیسے پھنسے ہوئے ہیں اور وہ گو مگو کے عالم میں ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے حکم دیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کراچی کے قبضے سے غیر قانونی زمین واگزار کرائی جائے۔ لیکن اس کے بارے میں بھی گرینڈ حیات ٹاور جیسا فیصلہ ہو سکتا ہے کیونکہ اس منصوبے میں بھی ہزاروں افراد کی رقم پھنسی ہوئی ہے۔ ایک بار پھر یہ سوال کہ سرکاری اراضی ہو یا بحریہ ٹاؤن کے قبضے کی زمین، قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں سوئے رہتے ہیں اور کیا اگر بنی گالا کی تعمیرات کو ریگولرائز کیا جاسکتا ہے تو دوسری جگہوں پر ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟