بنگلا دیش پر آمریت کا آسیب

217

 

 

اس وقت پوری دنیا میں جمہوریت کو قبولِ عام کا درجہ حاصل ہے۔ کرۂ ارض پر ہر جگہ جمہوریت کے گن گائے جا رہے ہیں اور جمہوریت کے راگ الاپے جا رہے ہیں لیکن یہ حقیقت بھی کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ جمہوریت سے زیادہ مظلوم دنیا میں کوئی اور نظام نہیں ہے۔ بہ استثنائے چند پوری دنیا میں جمہوریت کے نام پر جمہوریت کا گلا کاٹا جا رہا ہے، جمہوری قدروں کو پاؤں تلے روندا جا رہا ہے۔ جمہور کی رائے کو دبایا جا رہا ہے۔ بدترین قسم کے جبر اور استیصال کے ذریعے جمہوریت کا چہرہ مسخ کیا جا رہا ہے، جمہوریت کی آڑ میں نہایت ہولناک قسم کی آمریت بے زبان لوگوں پر مسلط کی جا رہی ہے لیکن دعویٰ یہی کیا جا رہا ہے کہ ہم جمہوری ملک ہیں اور حکمران عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر تختِ اقتدار پر بیٹھے ہیں۔ یہ ڈراما دنیا کے بہت سے ملکوں میں کھیلا جا رہا ہے اور بار بار کھیلا جا رہا ہے لیکن عالمی سطح پر ہلکی پھلکی تنقید کے سوا اس پر کوئی مخالفانہ ردعمل نہیں پایا جاتا اور عالمی برادری نے گویا طے کر لیا ہے کہ اسے جمہوریت کے نام پر آمریت کا کھیل کھیلنے والوں کے ساتھ ہی مل کر چلنا ہے اور انہیں کسی عالمی تنہائی کا شکار نہیں ہونے دینا۔ بنگلا دیش بھی ایک ایسا ہی ملک ہے جہاں چند روز پہلے عام انتخابات کا ڈراما رچایا گیا ہے اور عوام لیگ نے تین سو رکنی پارلیمنٹ میں 288 نشستیں حاصل کرکے حیران کن کامیابی حاصل کی ہے لیکن اس پر حیرت اس لیے نہیں ہونی چاہیے کہ یہ ایک طے شدہ ڈراما ہے جو کھیلا گیا ہے۔ عوامی لیگ کی سربراہ بیگم حسینہ واجد گزشتہ دس سال سے مسلسل برسراقتدار چلی آرہی ہیں اور اب تیسری مرتبہ قطعی اکثریت کے ساتھ انتخابات جیت کر وہ پھر پانچ سال کے لیے بنگلا دیش کے سیاہ و سفید کی مالک بن گئی ہیں۔ کیا واقعی ان کی شخصیت بنگلا دیش کے عوام میں اتنی مقبول اور ہر دلعزیز ہے کہ انہیں کسی اپوزیشن کا سامنا نہیں ہے اور عوام ان پر جان چھڑکتے ہیں۔۔۔ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ بنگلا دیش کے حالات پر سرسری نظر رکھنے والے بھی اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ وہاں ریاست کی اندھی طاقت کے ساتھ تمام مخالف سیاسی جماعتوں کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ بنگلا دیش بننے کے بعد وہاں جماعت اسلامی ایک مضبوط اسلامی سیاسی قوت کی حیثیت سے منظر عام پر آئی تھی اور اس ملک کو ایک اسلامی جمہوری ریاست کی حیثیت سے دنیائے اسلام میں متعارف کرانا چاہتی تھی۔ اس کے قائدین جب تک بنگلا دیش مشرقی پاکستان کی حیثیت سے پاکستان کا حصہ تھا تو ان کی وفا داری پاکستان کے ساتھ تھی جب بنگلا دیش بن گیا تو انہوں نے غیر مشروط طور پر اس کی وفاداری قبول کر لی اور اس کی تعمیر و ترقی کی جدوجہد میں شریک ہو گئے لیکن ان کی یہی وفاداری اور اپنے ملک کو ایک ترقی یافتہ اسلامی جمہوری ریاست بنانے کی جدوجہد ہی جماعت اسلامی کے قائدین کا سب سے بڑا جرم بن گیا اور ان پر غداری کا الزام لگا کر انہیں چن چن کر شہید کر دیا گیا۔ جماعت اسلامی پر پابندی لگا دی گئی۔ قید و بند کی آزمائش اس کے کارکنوں کا مقدر بن گئی بلکہ اسلام کے نام پر سیاست کرنا اور اسلامی لٹریچر کی نشرو اشاعت کرنا بھی جرم قرار دیدیا گیا کیوں کہ جس بیرونی طاقت (بھارت) نے بنگلا دیش بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اس کے حکمرانوں کا کہنا تھا کہ ہم نہیں چاہتے کہ بنگلا دیش دوسرا پاکستان بن جائے اور یہاں پھر اسلام کی باتیں ہونے لگیں۔
جماعت اسلامی سے نمٹنے کے بعد دوسری سیاست جماعت ’’بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) پر ہاتھ ڈالا گیا جو پاکستان کے ساتھ دوستی کی حامی تھی اور اپنے دور اقتدار میں پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے میں بہت پیش رفت کر چکی تھی۔ اس کے قائدین پر کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام لگا کر حوالۂ زندان کر دیا گیا، اس کے علاوہ ایک دو اور سیاسی جماعتیں تھیں جنہیں ٹھڈے مار کر پیچھے دھکیل دیا گیا۔ اور نئے انتخابات اس حال میں کرائے گئے کہ سیاسی میدان میں عوامی لیگ کا کسی سے مقابلہ نہ تھا۔ میڈیا پر مکمل پابندی تھی اور نام نہاد انتخابی عمل کا جائزہ لینے کے لیے بیرونی مبصرین کو بنگلا دیش میں قدم رکھنے کی اجازت نہ تھی۔ اس طرح جس نام نہاد انتخابی نتیجے کا اعلان کیا گیا ہے اس میں عوامی لیگ کو مکمل بالا دستی حاصل ہے اور جیسا کہ آمرانہ نظام کا خاصہ ہے، بنگلا دیش میں بھی یک جماعتی جمہوریت قائم ہو گئی ہے۔ بھارت بنگلا دیش میں ایسی ہی جمہوریت قائم کرنا چاہتا تھا جس میں وہ پوری طرح کامیاب رہا ہے اس وقت بنگلا دیش کی فوج، عدلیہ، منتخب سول ادارے اور انتظامی مشینری سب کچھ بھارت کے کنٹرول میں ہے، بنگلا دیش کی خارجہ پالیسی کو بھی بھارت ہی چلارہا ہے جس میں پاکستان دشمنی کو مرکزی اہمیت حاصل ہے خود بھارت کی خارجہ پالیسی بھی پاکستان دشمن کے محور کے گرد گھوم رہی ہے بیگم حسینہ واجد کو یہ باور کرا دیا گیا ہے کہ اگر وہ اس راستے سے ہٹی تو اس کی خیر نہیں ہے۔ بنگلا دیش میں پاکستان کے حامی عناصر اسے کھا جائیں گے اور اس کا حشر بھی وہی ہو گا جو اس کے باپ کا ہوا تھا۔ اس طرح بھارت نے بیگم حسینہ واجد کو آمریت کے آسیب کی حیثیت سے بنگلا دیش پر مسلط کر دیا ہے لیکن قدرت نے ہر عمل کی کوکھ میں اس کا رد عمل بھی پوشیدہ کر رکھا ہے بنگلا دیش پہلے بھی اس کا تجربہ کر چکا ہے اب پھر اسی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے!